Welldone molana fazal ur Rehman

ویل ڈن مولانا فضل الرحمان




مولانا فضل الرحمان ہماری قومی سیاسی تاریخ کا ایک معتبر نام ہے انہوں نے قومی سیاست میں ہمیشہ ایک فعال اور جاندار کردار ادا کیا ہے اور ہنوز وہ یہ کام کر رہے ہیں۔ پی ڈی ایم 12 جماعتی اتحاد ہے جس میں نظری، فکری اور عملی سیاست میں متحارب نقطہ نظر رکھنے کے اعتبار سے سیاسی جماعتوں کو متحد کرنا مولانا فضل الرحمان کا کمال ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مذہبی گروہی اعتبار سے مخالفانہ نظریات رکھنے والی دینی جماعتیں بھی اگر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھی نظرآ رہی ہیں تو یہ مولانا کی کرشماتی شخصیت کا خاصا ہے۔ بریلوی، حنفی، اہل حدیث اور شیعہ گروہی نقطہ نظر رکھنے والی جماعتیں اگر پی ڈی ایم کے پرچم تلے جمع ہیں تو یہ مولانا کی ساحرانہ سیاسی شخصیت کا کمال ہے کہ ایسے مختلف الخیال سیاسی و مذہی مکاتیب فکر کے لوگ مولانا کی سربراہی میں اکٹھے جدو جہد کر رہے ہیں۔ عمران خان کی منفی اور ملک دشمن سیاست کا مقابلہ کرنے کے لئے جس فکری و عملی قوت کی ضرورت تھی وہ مولانا کی جاندار فکری و عملی شخصیت کے ذریعے میسر ہے۔ ویسے مولانا کی جمعیت العلماء اسلام صوبہ سرحد اور بلوچستان کی حکمران جماعت رہی ہے اس حوالے سے اسے ہم علاقائی یا صوبائی جماعت کہہ سکتے ہیں لیکن انکے مسلک کے مدارس اور مساجد کراچی تاخیبر پاکستان کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں انکے مسلکی پیروکار پورے ملک میں ہی نہیں بلکہ افغانستان اور دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں۔ تحریک طالبان جس نے 20 سالہ جنگ میں امریکی اتحادی افواج کو شکست فاش سے ہمکنار کیا وہ بھی انہی کے مسلکی مدارس سے اٹھی تھی۔ اس طرح مولانا فضل الرحمان کے اثرات بین الاقوامی نوعیت کے کہے جا سکتے ہیں۔ جمعیت علماء ہند، کانگریسی ذہن کی حامل تھی اور تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی فکری و عملی طور پرمخالف تھی لیکن مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور اسی لیول کے دیگر اکابر دیوبندی علماء نے قائداعظم اور انکی مسلم لیگ کے پرچم تلے قیام پاکستان کی جدو جہد میں حصہ لیا۔ قائد اعظم کی نماز جنازہ بھی علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔ مولانا فضل الرحمان یا انکے والد مفتی محمودؒ کی جمعیت علماء ا سلام کا سیاسی اعتبار سے اس جمعیت علماء ہند سے ہرگز نہیں ہے جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی مولانا مودودیؒ نے بھی ایک انداز میں آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کی مخالفت کی تھی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد یہ شخصیات، مولانا مودودیؒ اور مولانا مفتی محمودؒ پاکستان
کی بقا اور ترقی کے لئے مصروف عمل ہو گئے۔ مولانا مودودیؒ نے قیام پاکستان کے بعد اسلامی دستوری جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔ بھٹو فسطائیت کے خلاف قوم کی اجتماعی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں پاکستان قومی اتحاد نے عظیم الشان جدوجہد کی۔ مولانا مودودیؒ کی جماعت اسلامی اس تحریک کا ہراول بنی پروفیسر عبدالغفور نے اس اتحاد کے جنرل سیکرٹری کے طور پر قوم کی شاندار خدمت کی اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
مفتی محمودؒ کے صا جزاد ے مولانا فضل الرحمان عمران خان کی فتنہ پرور سیاست کے روز اول سے ہی ناقد رہے ہیں۔ انہوں نے جم کر عمران خان اور انکی تحریک انصاف کی شر انگیزیوں کو قوم کے سامنے پیش کیا۔ عمران خان کی فکری لغزشوں پر محاکمہ کیا قوم کو عمران خان کی ملک دشمن سیاست سے آگاہ کیا۔ اس وقت جب ہماری اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ادارے عمران خان کو برسر اقتدار لانے کے بعد اسکی رہنمائی کر رہے تھے پاکستان کی بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کہیں جدوجہد کرتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ ویسے اس وقت عمران خان کا قہر و جبر سیاستدانوں پر نازل ہو رہا تھا کسی کی جرأت نہیں تھی کہ آنکھ بھی اٹھائے۔ ایسے وقت میں مولانا نے ایک عظیم الشان لانگ مارچ/ دھرنے کا انعقاد کر کے سیاسی بصیرت اور قائدانہ جرأت کا ثبوت دیا ہم نے دیکھا کہ مولانا کی انصار الاسلام نے قہر اور جبر کے دور میں جرأت رندانہ کا مظاہرہ کر کے اس بات کا ثبوت دیا کہ قوم جاگ رہی ہے۔ عمران خان ناقابل تسخیر نہیں ہے ان کا مقابلہ ہر سطح پر کیا جا سکتا ہے۔ 9/10 اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کے قیام کے بعد عمران خان اور اس کے سہولت کاروں نے ایک دن بھی اتحادی حکومت کو آرام و سکون سے چلنے نہیں دیا۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے چیف اور ان کے چند ایک ساتھی ججوں نے عمران خان کی حمایت میں کئی فیصلے کئے۔ یہ آج تک نہیں ہوا کہ ایک ملزم جس کا ریمانڈ بھی ہو چکا ہو اسے ضمانت دی جائے۔ چیف نے ایسا کر دکھا یا پھر حیران کن بات تو یہ ہے کہ عمران خان کو آئندہ کے لئے بھی ضمانت دے دی گئی یعنی مستقبل میں بھی انہیں گرفتار نہیں کیا جانے کا حکم جاری فرما دیا۔
اس سے پہلے سپریم کورٹ کے چیف 14 مئی تک پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم شاہی جاری کر چکے تھے۔ ماہرین وناقدین کے بقول 15 تاریخ کو اس مقدمے کی سماعت میں توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوجانی تھی اور پھر شہباز شریف حکومت کا دھڑن تختہ ہونا تھا۔ ایسے میں مولانا نے لانگ مارچ/ دھرنے کا اعلان کیا۔ قافلے اسلام آباد کی طرف چل پڑے۔ دیگر اتحادی جماعتوں نے بھی مولانا کی آواز پر لبیک کہا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم الشان مظاہرہ ہوا۔ مولانا نے سپریم کورٹ کے سامنے چیف صاحب کی ناانصافیوں کے خلاف دھرنے کا اعلان کیا تھا انہوں نے رائے عامہ کو نہ صرف زبان دی بلکہ دھرنے کے ذریعے اس کا عملی مظاہرہ بھی کر دکھایا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ 15 مئی 2023 کو چیف نے کیس پر اگلی تاریخ ڈال دی۔ چیف الیکشن کمیشن کی درخواست پر کارروائی کے لئے فریقین کو 23 مئی حاضری کے نوٹس جاری کر دیئے۔ مولانا کی سیاسی بصیرت اور جرأت رندانہ نے عمران خان کے سہولت کار ججوں کو ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ ویل ڈن مولانا صاحب۔

Leave a Reply