Gndhara siyahat

گندھارا سیاحت




پاکستان کے شمالی علاقے کسی زمانے میں بُدھ مت کے غلبے والی قدیم گندھارا تہذیب کا لازمی حصہ تھے جو پہلی صدی سے ساتویں صدی تک پھیلی ہوئی تھی۔ ٹیکسلا‘ تخت بھائی‘ سوات اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے مختلف حصوں میں بہت سے تاریخی مقامات اور بالخصوص مقدس عبادت گاہیں واقع ہیں۔ مؤرخین کے مطابق کم از کم تاریخی اہمیت کے ’اُنیس‘ قدیم مقامات خیبر پختونخوا میں واقع ہیں۔ سندھ میں پانچ‘ بلوچستان میں ایک‘ پنجاب میں دس اور گلگت بلتستان میں چار ایسے مقامات واقع ہیں‘ جو ملکی و بین الاقوامی سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں شاہ اللہ دتہ کی پراسرار غاریں ثابت کرتی ہیں کہ کبھی پاکستان کا دارالحکومت بھی ’قدیم گندھارا تہذیب‘ کا حصہ تھا۔ گوتم بدھ کے انتقال کے بعد‘ جنہوں نے اپنی پوری زندگی امن اور ہم آہنگی کے پیغام کو پھیلانے کے لئے وقف کی تھی‘ اُن کی راکھ کو آٹھ مختلف مقامات پر بنائی گئی عبادت گاہوں (اسٹوپوں) میں محفوظ کیا گیا تھا‘ جن میں سے ایک ٹیکسلا کا ’دھرم راجیکا اسٹوپہ‘ ہے اور اِس طرح کے دیگر مقامات میں سب سے زیادہ نمایاں تھا۔ اشوک اعظم کے دور حکومت میں‘ بدھ مت سرکاری مذہب بن گیا اور ان کی وسیع و عریض سلطنت میں مختلف مقامات پر ایسی ہزاروں عبادت گاہیں تعمیر کی گئیں۔ مؤرخین کا ماننا ہے کہ مہاتما بدھ کا پہلا مجسمہ ٹیکسلا میں بنایا گیا تھا۔ اسی طرح انسانی تاریخ میں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی بھی ٹیکسلا میں قائم کی گئی جہاں عظیم فلسفی چانکیہ طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے۔ آج بھی ان کی شاہکار کتابیں ’ارتھ شاستر‘ اور ’چانکیہ نیتی‘ عالمی شہرت یافتہ ہیں اور دنیا بھر میں مقبول ہیں۔گندھارا دور کو عام طور پر بدھ مت کے عروج سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جین مت‘ زرتشت مذہب اور ہندو مت کے پیروکاروں کو بھی اُس دور میں اپنی عبادات و رسومات ادا کرنے کی آزادی حاصل تھی۔ بدھ مت کے مختلف اسٹوپوں کے ارد گرد واقع دھرمک مذاہب کے کئی مندر موجود ہیں جن میں جین مت‘ پارسی اور ہندو مت شامل ہیں اور یہ عبادت گاہیں اِس بات کی عکاسی کر رہی ہیں کہ بدھ مت کے دور میں دیگر اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔ گزشتہ چند برس سے ذرائع ابلاغ میں کئی ایسی خبریں زیرگردش ہیں کہ تھائی لینڈ‘ کوریا اور سری لنکا سمیت مختلف دوست ممالک میں بدھ مت کے پیروکاروں نے پاکستان میں واقع گندھارا مقامات کی زیارات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے انتہائی بااثر بودھی رہنما نے اپنے پیروکاروں کے ہمراہ ٹیکسلا کا دورہ کیا‘ جو گندھارا سیاحت کے فروغ کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ آج یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کی سات فیصد سے زیادہ آبادی (تقریباً باون کروڑ افراد) بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ جاپان‘ جنوبی و شمالی کوریا‘ چین‘ برما (میانمار)‘ تھائی لینڈ‘ کمبوڈیا‘ ویت نام‘ سری لنکا‘ سنگاپور‘ بھوٹان‘ لاؤس اور منگولیا سمیت کئی ایشیائی ممالک میں بدھ مت کے پیروکاروں کی آبادی موجود ہے۔ چین میں چوبیس کروڑ سے زیادہ افراد بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ ایشیا بحرالکاہل کے یہ تمام ممالک بین الاقوامی سفارتی محاذ پر پاکستان کے دوست ممالک سمجھے جاتے ہیں۔ بدھ مت کے پیروکاروں کی بڑی تعداد روس‘ بھارت‘ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں بھی رہتی ہے۔ راقم الحروف نے اپنے غیرملکی دوروں بالخصوص ایشیا بحرالکاہل کے ممالک کے دوروں میں مشاہدہ کیا کہ پاکستان کے گندھارا خطے میں بنائے گئے بدھ کے مجسمے سب سے مقدس سمجھے جاتے ہیں۔ ہر بدھ مت کا ماننا ہے کہ وہ اپنی آخری سانس لینے سے پہلے پاکستان میں واقع مقدس مقامات (اسٹوپوں) کی زیارت کرے یا کم از کم ٹیکسلا کی مقدس مٹی سے بنے مہاتما بدھ کے مجسمے کو اپنے پاس رکھے تاکہ اپنی زندگیوں میں خوشحالی اور برکت حاصل کر سکے۔ راقم الحروف کے خیال میں گندھارا ورثہ مثبت تشخص کو فروغ دینے اور بودھی اکثریت والے دوست ممالک سے غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کے لئے سب سے قیمتی اثاثہ ہے تاہم ہمیں گندھارا کو صرف فنون لطیفہ یا ورثے تک محدود نہیں کرنا چاہئے کیونکہ عظیم تہذیب رواداری‘ بھائی چارے اور بین المذاہب ہم آہنگی پر مبنی ہمارے شاندار ماضی کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر حکومت صرف گندھارا سیاحت کے فروغ پر توجہ دے تو مجھے پورا یقین ہے کہ اِس سے نہ صرف پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر ہو گی بلکہ بنا کسی سرمایہ کاری قیمتی زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے گا۔ اگر مہاتما بدھ کے مجسمے اور اِن مجسموں کو بنانے میں مہارت رکھنے والے پاکستانی فنکاروں کی حکومتی سطح پر سرپرستی کی جائے تو گندھارا آرٹ کے نمونوں کو برآمد کر کے پاکستان کی قومی معیشت مضبوط بنائی جا سکتی ہے۔ (مضمون نگار رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر رمیشن وانکوانی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Leave a Reply