Pur aman siasat riasat ka order

پر امن سیاست ریاست کا آرڈر




پاکستان آج کل ٹکراو اور انتشار کی زد میں ہے۔غیر جمہوری معاشروں میں تشدد کا استعمال عموماً عوام کو اشرافیہ یا حکمران طبقات کی خواہشات کے تابع کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔تشدد کے متاثرین کی تشہیر کر کے خوف پیدا کیا جاتا ہے تاکہ سیاسی مخالفین کو کم کیا جا سکے اور سیاسی مخالفت پر قابو پایا جا سکے۔کچھ معاملات میں ریاست اپنے ان شہریوں پر تشدد کرتی ہے جن کی جان و مال کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، ایسی کارروائیاں اپنے دفاع، احتیاطی تدابیر، جوابی اقدامات کے بینرز تلے کی جاتی ہیں مگر ان کے مقاصد کہیں زیادہ وسیع طاقتور اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لئے ریاستی مشینری کا استعمال کر کے، خوف و ہراس پھیلا کر ،عوام کو جیلوں میں ٹھونس کر اس طرح کی فضا بنائی جاتی ہے کہ عوام حکومتی جبر کو تسلیم کر لیں۔ پاکستان میں یہ کام ضیاء الحق نے کوڑے مار کر، سیاسی کارکنوں سے جیلوں کو بھر کر، پھانسیاں دے کر کیا تھا ۔جس کی وجہ سے انگارے اگلتے سیاسی کارکن جو اپنی سیاسی و معاشی اور قومی آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے وہ یا تو مر گئے یا تھک گئے یا بک گئے۔پاکستان اور عوام کئی دہائیوں کے لئے اندھیرے میں چلے گئے۔ خدشات پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت جب کہ عوام بد عنوانوں سے اور عالمی سامراج سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے حکمران اتحادان کی شہری آزادیوں کو ختم کر کے اور اذیتیں دے کر ان کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ استحصالی نظام اور سامراج کے چنگل سے آزاد نہ ہوں۔ جبر کو تسلیم کر لیں۔ شرپسندوں اور دہشت گردوں کو ضرور پکڑنا چاہیے۔ قوانین کے مطابق سزائیں بھی دی جانی چاہیں مگر سات ہزار سے زیادہ سیاسی کارکنوں سے جیلوں کو بھرنا، عورتوں کو سڑکوں پر گھسیٹنااور عدالتوں کا گھیرائو کرنا یہ بجائے خود پرتشدد حربے ہیں۔پول پاٹ کی حکومت ہو یا ہٹلر کی، تاریخ میں مطلق العنان حکومتوں نے تشدد کا بدترین استعمال کر کے اپنی آبادی کو خوفزدہ کئے رکھا مگر عوام یا اقوام نے بالآخر بالا دستی پائی۔ یورپی نوآبادیاتی طاقتوں نے اپنی سلطنتوں کو قائم رکھنے کے لئے جلیانوالہ باغ جیسے مظالم کئے مگر ہر اس طرح کے واقعہ کے بعد عوام میں ان سلطنتوں کے خلاف نفرتیں بڑھیں۔ بالآخر دوسری عالمی جنگ کے بعد ان سلطنتوں کا خاتمہ ہوا۔ آزادی کی تحریکیں کامیاب ہوئیں اور دنیا کے نقشے پر کئی نئے ممالک ابھرے اور قائم ہوئے۔ ثابت ہوا کہ تشدد کے ذریعے عوام کو ہمیشہ کے لئے نہیں دبایا جا سکتا۔ سرد جنگ کے دوران ان ممالک میں جہاں پر امریکہ نواز حکومتیں تھیں ،بالخصوص لاطینی امریکہ میں، امریکہ کی مدد سے امریکہ مخالف تحریکوں کو کچلنے کے لئے اغوا‘ گمشدگی کے بعد قتل اور ہر قسم کا اذیت ناک تشدد کیا گیا۔1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں امریکہ مخالف لاطینی رہنمائوں کو اذیت دے کر مارنے کے بعد گوئٹے مالا کی ریاست ان کی مسخ شدہ ‘ تشدد شدہ لاشوں کی تصاویر کو اخبارات میں شائع کرواتی تھی تاکہ عوام خوف میں زندہ رہیں اور امریکہ کے خلاف نہ تو بغاوت کر سکیں اور نہ ہی گوریلا جدوجہد کرنے والوں کی مدد کر سکیں۔حال ہی میں اس کی تفصیلات ایمنسٹی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی رپورٹ میں شائع ہوئی ہیں مگر پھر کیا ہوا ؟ان میں سے اکثر کا تختہ الٹا گیا‘ عوامی تحریکیں کامیاب ہوئیں اور ان ممالک میں امریکہ مخالف حکومتیں قائم ہوئیں۔ارجنٹائن‘ نکارا گوا، پیرو، چلی‘ میکسیکو‘ وینزویلا ‘ ایکواڈور‘ بولیویا‘ برازیل ‘ہنڈوراس‘ کولمبیا‘ گویا پورا لاطینی امریکہ‘ امریکہ کے چنگل سے نکل گیا۔اس کے باوجود کہ پچھلے سال تک امریکہ 200سال پرانے Monroe Doctrineکا حوالہ دے کر اس بات کا اعادہ کرتا چلا آیا ہے کہ وسطی اور جنوبی امریکہ پر اس کا حق ہے۔1823ء میں امریکی صدر جیمز مٹرو کے نام سے منسوب Doctrineیہ ہے کہ امریکہ امریکیوں کے لئے ہے اور یہ کہ امریکہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے جنوب میں کسی بھی ملک میں مداخلت کرے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ دوسرے ممالک یہاں پر اپنا اثرورسوخ قائم نہ کر سکیں۔بعد میں صدر تھیوڈور روز ویلٹ نے منرو کے نظریے کو وسعت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ لاطینی امریکہ کے ساتھ نرمی سے بات کریں مگر ڈنڈا بھی اٹھائے رکھیں۔ امریکہ نے ڈنڈا اٹھائے رکھا۔ریاستی اور عالمی تشدد کا انہیں نشانہ بناتے رہے مگر وہ جدوجہد جس کی ابتدا چی گویرا اور فیڈل کاسترو نے کی تھی اس نے پورے لاطینی امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور لاطینی امریکہ کے عوام ریاستی تشدد کے باوجود ظالم اور استحصالی امریکہ نواز حکمرانوں سے آزاد ہوتے گئے۔ لاطینی امریکہ جس کو امریکہ اپنا بیک یارڈ کہا کرتا ہے اب عوام کا اپنا گھر ہے۔ پاکستان پر پاکستان کے 98فیصد عوام کا حق ہے ۔ حکمران ان کی خدمت کے لئے ہیں نہ کہ ان پر تشدد کرنے کے لئے ۔ تشدد نہ کریں‘ عوام کو منائیں وہ اپنے معاشی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور انتخابات میں اپنی معاشی اور سیاسی بہتری کا خواب دیکھ رہے ہیں انہیں انتخابات دیں جو کہ صاف اور شفاف ہوں۔ پی ڈی ایم اذیت کے ذریعے عوام کے رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے، ہنگامہ آرائی کو کنٹرول کرنا ریاستی حق ہے اور ذمہ داری بھی مگر ہنگامہ آرائی کی صورت حال خود پیدا کر کے ایسی فضا کو تیار کرنا جس میں تشدد پر اجارہ داری کی تمام شکلیں آزمائی جا سکیں ۔ اس معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔آئندہ آنے والی نسلیں اس کو آسانی کے ساتھ نہیں بھلا سکیں گی۔ اب یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ امریکہ میں 9/11اس لئے کروایا گیا تھا کہ War on Terrorشروع کی جائے جس کی آڑ میں گلوبلائزیشن کا عمل شروع کر کے پورے گلوب کو نیو ورلڈ آرڈر کے شکنجے میں جکڑا جائے۔دنیا پر غیر قانونی اور غیر آئینی جنگیں مسلط کی گئیں۔ لاکھوں معصوم انسانوں کو قتل کیا گیا اور لاکھوں گھر برباد ہو گئے۔ افغانستان‘ شام ‘ عراق ‘ صومالیہ ‘ لیبیا‘ یمن‘ سوڈان کے مہاجرین آج تک دنیا بھر میں بھٹک رہے ہیں۔ دنیا کا امن و سکون برباد ہو گیا۔ ورلڈ آرڈر بھی نافذ نہیں ہو سکا ۔جنگوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر امریکہ کے تیل اور اسلحہ کے سوداگر مالا مال ہو گئے اور کارپوریٹ کیپٹلزم کو امریکہ کی توسیع پسندانہ عالمی دہشت گردی سے مزید تقویت ملی۔ اس عالمی سامراجی دہشت گردی سے امریکہ کے ننانوے فیصد عوام کو نہیں بلکہ ایک فیصد کو فائدہ پہنچا جبکہ امریکہ کی معیشت اور سیاست کو بہت بڑا دھچکا پہنچا۔پاکستان کی اشرافیہ کی چند شخصیات کی خواہش ‘تسکین یا ان کے جرائم اور سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے بائس کروڑ عوام پر خوف مسلط کر کے اندھیرے مستقبل میں دھکیل دینا نامناسب ہے۔اس بات کا خیال رہے کہ مودی سرکار اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اپنی آبادی بالخصوص دلت اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کو بطور ہتھکنڈہ استعمال کر رہی ہے مگر دنیا میں اسے ریاستی دہشت گرد حکومت کے طور پر جانا جاتا ہے۔پاکستان کے حکمرانوں کو عالمی سطح پر اچھی شہرت کے حامل نہیں سمجھا جاتا۔پر امن سیاست ریاست کا آرڈر ہے لیکن حکومت کی پالیسی اس کے متضاد نظر آرہی ہے۔

Leave a Reply