Zimedari kia hoti hai , cheen sy sikhiye!

!ذمہ داری کیا ہوتی ہے،چین سے سیکھئے




یہ جو ہماری صورت حالات اس قدر بگڑی ہوئی نظر آتی ہے اس کے پیچھے کمی یہ ہے کہ حکمرانوں سے لے کر کر عام آدمی تک، اہل اختیار سے لے کر ایک بے بس پاکستانی تک کوئی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔مزید برآں یہ کہ اپنی غلطیوں کو دوسروں کے سر پر تھوپنے کا رواج ہے۔فی الحال ہم موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ نہیں کرنے لگے بلکہ اس وقت ہمارا موضوع چین اور کلین انرجی میں اس کا بڑھتا ہوا رہنما کردار ہے۔چائنا اس توازن کی ایک خوبصورت مثال ہے کہ آزادی کے ساتھ ذمہ داری لینا سیکھو، اپنی غلطیوں کا بوجھ اٹھائوتاکہ انہیں درست کرسکو۔اس طرح یہ جو تین حرفی محاورہ ہے کہ Clean your mess. اس کے اندر بھی یہی سبق موجود ہے کہ جو کام آپ نے غلط کیا ہے اس کو درست کرنے کے ذمہ داری بھی آپ کی ہے۔اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے والا کوئی فرد ہو یا قوم وہ زندگی کی دوڑ میں ناکام نہیں ہوتی ۔صنعتی ترقی کی صورت میں چائنا نے دنیا کی آلودگی کی میں تنہا 30 فی صد سے زیادہ اضافہ کیا جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ کا حصہ صرف 14پرسنٹ ہے۔چائنا میں ہونے والی صنعتی ترقی کی وجہ سے دنیا میں آلودگی کے خدشات اور خطرات بڑھ رہے ہیں اور دنیا کی طرف سے چائنا پر یہ دباؤ بھی آرہا ہے کہ اپنی آلودگی کو کنٹرول کرے۔چین میں 21 فیصد بیماریاں آلودہ فضا سے پیدا ہورہی ہیں جو کہ امریکہ کے معاملے میں 8 پرسنٹ زیادہ ہے۔دنیا کے ماحولیاتی توازن کو درست کرنے کی ذمہ داری بھی سب سے زیادہ چین پر عائد ہوتی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ چین اس محاذ پر بھی دنیا کے سامنے مثال بننے جارہا ہے۔ چائنا نے اگلے دس سال کا روڈ میپ تیار کر رکھا ہے۔اس ترجیحی فہرست میں ماحولیات سرفہرست ہے ۔دنیا کے 20 آلودہ ترین شہروں میں چائنا کے 16 شہر شامل ہیں اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی سے پاک چین کا قیام چین کے پالیسی سازوں کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہوگا۔آلودگی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے چائنا نے کلین انرجی کے پراجیکٹ پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ بہت سارے ایشو چائنا کے اندر متنازع سمجھے جاتے ہیں لیکن ماحولیات کا ایشو متنازعہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے چین کے ہر شہر میں ترجیحی بنیادوں پر کام ہورہا ہے چائنا کو کلین انرجی ٹیکنالوجی کی ضرورت اس لیے ہے کہ چائنا ان ملکوں میں شامل ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ کوئلہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کے بعد چائنا کا دوسرا نمبر ہے۔تیل کے استعمال میںچائنا دنیا کے ماحول میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس دینے والا ملک ہے۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی آلودگی بڑھانے میں چائنا کا حصہ اس وقت سب سے زیادہ ہے۔ اسی لئے چائنا نے یہ طے کیا ہے کہ 2035 تک چائنا اپنی 80 فیصد بجلی کلین انرجی سے پیدا کرے گا.چائنا کے پالیسی میکرز کہہ رہے ہیں کہ کلین اینرجی دنیا کی ایک نئی حقیقت ہے اس کو مان کر ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔کیونکہ ہمیں ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ زمین کو آلودگی سے بچانے کے اقدامات کرنے ہونگے ورنہ یہ ترقی بنی نوع انسان کے لیے گلے کا پھندہ ثابت ہوگی۔دنیا کے تمام ملکوں کو کلین انرجی کی حقیقت کو ماننا پڑے گا۔ دنیا کی بڑے معاشی طاقتوں کے حامل ملکوں کے توانائی سیکٹر کے وزراء کی ایک مجلس بیجنگ میں ہوئی ہے جس میں سب اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ کلین انرجی ہیں دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کا ذریعہ ہے۔ کلین انرجی کے تین ذرائع ہیں: سورج، ہوا اور پا نی سے چائنا نے کلین انرجی کے حوالے سے اپنا انفراسٹرکچر تیار کرلیا ہے۔چائنا نہ صرف کلین الرجی کا سب سے بڑا انویسٹر ہے بلکہ سب سے بڑا کنزیومر بھی ہے۔چین ان ملکوں میں شامل ہے جو سب سے زیادہ ونڈ پاور سے انرجی پیدا کر رہے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ ہوا سے پیدا کی گئی بجلی کا تناسب چائنا میں بڑھ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں پر اب توانائی کے بجلی کے ریٹ بھی کم ہے۔ 2015 میں پیرس میں ماحولیات کی انٹرنیشنل کانفرنس میں تمام ممبر ملکوں نے اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا تھا کہ انہیں کلین انرجی کی طرف آنا چاہیے اور فوسل فیولز کو کم سے کم استعمال کرنا چاہئے تاکہ قدرتی فضا کو محفوظ کیا جا سکے۔ چین کلین انرجی پراجیکٹ اور لوکل اربنائزیشن کے حوالے سے دنیا کو لیڈ کر رہا ہے اور اس وقت دنیا کا سب سے بڑا کلین پاور جنریشن سسٹم رکھنے والا ملک بن چکا ہے ہیں۔ چائنا صحرائے گوبی میں دنیا کا سب سے بڑا سولر اور ونڈ پاور جنریشن کا سسٹم قائم کرنے جارہا ہے یہ تاریخ کا سب سے بڑا سسٹم کہا جارہا ہے۔چین نے 2022 میں 546 بلین ڈالر کلین انرجی کے مختلف پروجیکٹ میں انویسٹ کئے امریکہ کے مقابلے میں چین کی انویسٹمنٹ کہیں زیادہ ہے.چائنا نے اس حوالے سے سے حیران طریقوں پر کام کیا ہے چین کے ایک شہر میں ایسی شاہراہ ہے جو کہ سولر پینل سے بنی ہوئی ہے اس کا نام ہی سولر ایکسپریس وے ہے ۔یہ اتنی بجلی پیدا کرتی ہے جس سے 800 گھروں کو بجلی سپلائی کی جا سکتی ہے۔چین کا ایک شہر شیزن ہے جہاںصرف الیکٹرک بسیں چلتی ہیں۔حال ہی میں شہر کی بس سروس انتظامیہ نے اعلان کیا کہ اس شہر جو پانچ ہزار سے زیادہ بسوں کو الیکٹرک وہیکل میں تبدیل کرلیا گیا ہے۔ چین کی کلین انرجی پروجیکٹ میں انویسٹمنٹ امریکہ سے کہیں زیادہ ہے۔چین کے ساتھ ہمارے برسوں پرانے دوستانہ روابط اب سی پیک اکنامک راہداری کی صورت دوطرفہ تعلقات کی نئی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ جہاں ہم چین سے کلین انرجی کی بابت بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں وہیں ہمارے اہل اختیار و اقتدار کو یہ بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی غلطیوں کو درست کیسے کرتے ہیں ،اپنا پھیلاوا کیسے سمیٹتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ الزامات دوسروں کے سر تھوپ کے اپنی ذمہ داریوں سے چھٹکارا نہیں پایا جاسکتا۔

Leave a Reply