Ardogan ki maqbooliat

اَردوغان کی مقبولیت




    ترکیہ میں چودہ مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں کوئی بھی اُمیدوار واضح اکثریت (کامیابی) حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ ترک صدر رجب طیب اَردوغان اور حزب اختلاف کے امیدوار کمال کلیچداراوغلو پہلے مرحلے میں کم از کم پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ صدراتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ اٹھائیس مئی کو ہوگا۔ اَردوغان دوسرے مرحلے میں آگے ہیں چودہ مئی اَردوغان کے حامیوں کے لئے جشن منانے کی رات تھی کیونکہ وہ نہ صرف صدارتی انتخابات کی دوڑ میں آگے تھے بلکہ حکمران جماعت کی زیر قیادت پیپلز الائنس نے حال ہی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کو بھی شکست دی اَردوغان جنہیں اب زیادہ تر دائیں بازو کے عوامیت پسند کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘ نے تمام تر رکاوٹوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے چودہ مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ انہوں نے پہلے مرحلے میں اُنچاس اعشاریہ باون فیصد یا ستائیس اعشاریہ ایک ملین ووٹ حاصل کئے اور اپنے اہم حریف کمال کلیچداراوغلو سے آگے رہے۔ اَردوغان نے اپنے حریف کے مقابلے میں تقریباً پچیس لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کئے۔کمال کلیچ داراوغلو نے چوالیس فیصد یا دو کروڑ چھیالیس لاکھ ووٹ حاصل کئے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ ایک الٹرا نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما سنان اوگن اِن انتخابات میں تیسرے نمبر پر رہے اور انہوں نے اٹھائیس لاکھ ووٹ حاصل کئے۔ زیادہ تر جائزوں نے اشارہ دیا تھا کہ اَردوغان اوغلو کے بعد دوسرے نمبر پر رہیں گے لیکن انہوں نے ایک اور پانچ سالہ صدارتی مدت جیتنے کا موقع کھو دیا۔ پارلیمانی انتخابات میں اَردوغان کی زیر قیادت پیپلز الائنس نے ترک پارلیمان میں اپنی اکثریت برقرار رکھی ہے؛ اَردوغان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی قیادت میں دائیں بازو کے قوم پرست پیپلز الائنس نے 322 نشستیں حاصل کیں‘ چھ پارٹیوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد (نیشنز الائنس) صرف 212نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ اپوزیشن اتحاد کے لئے ایک مایوس کن رات تھی۔ بائیں بازو کے لیبر اینڈ فریڈم اتحاد نے چھیاسٹھ نشستیں حاصل کیں۔ ترکیہ کے صدراتی انتخابات میں رائے دہندگان کا ٹرن آؤٹ قریب ستاسی فیصد رہا اور پانچ کروڑ اٹھاون لاکھ سے زیادہ رائے دہندگان نے ووٹ ڈالے‘ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں جہاں درجہ حرارت زیادہ تھا وہاں بھی رائے دہندگان نے انتخابی عمل میں حصہ لیا۔ انتخابات سے قبل ایک عام تاثر یہ تھا کہ معاشی بحران‘ افراط زر میں اضافے‘ بڑھتے ہوئے قرضوں‘ ترک لیرا کے آزادانہ زوال اور تباہ کن زلزلے میں حکومت کی جانب سے ابتدائی ردعمل نہ دینے کی وجہ سے اَردوغان نمایاں حمایت اور مقبولیت کھو چکے ہیں اور حزب اختلاف اِس سے فائدہ اُٹھائے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔اَردوغان نہ صرف پہلے مرحلے میں کامیاب رہے بلکہ اپریل میں افراط زر 43.5 فیصد ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کی۔ بڑھتی ہوئی افراط زر اور بڑھتے ہوئے معاشی بحران نے ترک عوام کو بُری طرح متاثر کیا اور اِس بارے میں سماج کے مختلف طبقات میں غم و غصہ پایا جاتا ہے لیکن اپوزیشن معیشت کی بحالی اور دیگر مسائل پر بہت سے لوگوں کا اعتماد جیتنے میں ناکام رہی ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے لئے سرکاری میڈیا کو استعمال کرنے کے علاؤہ‘ اَردوغان نے مقبول ہونے کے لئے دیگر ذرائع بھی استعمال کئے۔ انہوں نے جنوری میں ہر ایک کے لئے کم از کم اجرت میں پچپن فیصد اور انتخابات سے ایک ہفتہ قبل سرکاری ملازمین کے لئے مزید پنتالیس فیصد تنخواہوں میں اضافے جیسے اقدامات بھی کئے جس سے اُنہیں انتخابات میں فائدہ ہوا۔ انہوں نے گیس کے بلوں میں کمی کی اور ریٹائرمنٹ کی عمر بھی کم کردی جبکہ اُن کے مقابلے اپوزیشن ترک معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے متبادل اقتصادی منصوبہ پیش کرنے میں ناکام رہی اور وہ رائے دہندگان کو قائل نہیں کر سکی کہ وہ افراط زر‘ کم جی ڈی پی اور کمزور کرنسی جیسے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ رائے دہندگان کے کچھ طبقوں میں اعتماد کی کمی کے نتیجے میں اپوزیشن اتحاد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حزب اختلاف کو اُمید تھی کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے رائے دہندگان اَردوغان کی حکومت سے خوش نہیں اور وہ انہیں ووٹ دے سکتے ہیں۔ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں میں حکومت کے ناقص ردعمل کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے لیکن یہ غصہ وقت کے ساتھ کم ہو گیا کیونکہ حکومت نے متاثرین کو راحت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اَردوغان رائے دہندگان کو قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ ان کی حکومت تباہ شدہ گھروں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کرے گی‘ ایسا لگتا ہے ترکیہ کے صدارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں بھی اَردوغان کا غلبہ رہے گا۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: خالد بھٹی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Leave a Reply