Gair zimedar pakistani, audio leaks aur tahreek e insaf chorny waly!!!!

!!!!غیر ذمہ دار پاکستانی، آڈیو لیکس اور تحریک انصاف چھوڑنے والے

وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس پر ایک جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کمیشن پر اعتراضات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف تو اس کی بڑی مخالف ہے جب کہ کچھ قانونی ماہرین نے بھی اس جوڈیشل کمیشن کے قیام کو ناپسند قرار دیا ہے۔ یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ کال ریکارڈ کرنا غیر قانونی ہے۔ اس حوالے سے مختلف دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ کسی کی کوئی آڈیو یا ویڈیو سامنے آتی ہے تو سب سے پہلے کہا جاتا ہے کہ یہ غیر قانونی عمل ہے، قانون اجازت نہیں دیتا آئین اجازت نہیںدےتا، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، پرائیویسی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ تمام دلائل مان لےں لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لیک ہونے والی آڈیو اور ویڈیوز میں کیا تعمیری باتیں ہو رہی ہیں، کیا ملکی ترقی کے لیے بات چیت ہو رہی ہے۔ کیا غربت کے خاتمے کے لیے منصوبہ بندی ہو رہی ہے، کیا بیروزگاری ختم کرنے کے لیے حکمت عملی تیار ہو رہی ہے۔ کیا بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بات چیت ہو رہی ہے۔ کےا پاکستان کے دشمنوں کا منہ توڑنے کے لیے سوچ بچار ہوتی ہے۔ یقینا ایسا نہیں ہے سب کے سب لوگ اپنے سیاسی مخالفین کو پھنسانے کے لیے سرکاری وسائل اور اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہے ہوتے ہیں یا کوششوں میں مصروف ہوتے ہیں، جن جن کی آڈیوز سامنے آئی ہیں ان کی اکثریت قومی مفادات سے متصادم ہے، قانون پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے، ریاست کو نقصان پہنچانے کے منصوبے ہیں۔ جب کوئی شخص اہم عہدے پر ہوتے ہوئے ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، ملک و قوم کے مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دے تو کیا یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ کیا وہ اپنے عہدے اور مرتبے سے انصاف کر رہا ہے۔ کال ریکارڈنگز غیر قانونی ہوں گی لیکن بنیادی سوال ریکارڈ ہونے والی یا لیک ہونے والی گفتگو کےا ہے۔ کیا کوئی محب وطن پاکستانی ایسا سوچ سکتا ہے کہ بند کمرے میں ملک کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بنائے، آئین و قانون کے خلاف کام کرنے کے لیے اکسائے۔ جیسا کہ 9 مئی کے دلخراش واقعات کے بعد پی ٹی آئی قیادت کی آڈیو لیکس سامنے آئیں۔ کیا قیادت ایسی ہوتی ہے۔ اس معاملے میں آئین و قانون کا ڈھنڈورا پیٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے پسندیدہ لوگوں کی بند کمروں میں ہونے والی گفتگو اور سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ مطلب کوئی ملک میں آگ لگانے کے منصوبے بناتا رہے اور ہم یہ کہتے رہیں کہ ایسے شخص کی کال ریکارڈ کرنا غیر قانونی ہے۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ اگر کسی نے کچھ غلط نہیں کیا تو اس کو تحقیقات سے کیسا خوف ہے۔ قوم کے سامنے سچ لائیں۔ چہروں سے نقاب ہٹیں، عام پاکستانی کو پتہ چلے کہ درحقیقت ہو کیا رہا ہے۔ اگر ہم اتنے غیر ذمہ دار ہیں تو پھر ہماری سانسوں کی ریکارڈنگ بھی کوئی بری بات نہیں کیونکہ ہم شاید اتنی آزادی کے حقدار ہی نہیں۔ ہم غیر ذمہ دار ہی نہیں حد درجہ بے وقوف بھی ہیں، یا پھر لالچی ہیں یا حد درجہ مفاد پرست۔ اس لیے ایسے کیسز کی شفاف تحقیقات ضروری ہیں۔ تاکہ قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والوں کا چہرہ ایک ہو، دو چہروں والوں سے نجات ملے۔ 




آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت نے تین رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا ہے، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن میں بلوچستان ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی شامل ہیں۔ کمیشن جوڈیشری کے حوالے سے لیک ہونے والی آڈیوز پر تحقیقات مکمل کر کے تیس روز میں وفاقی حکومت کو پیش کرے گا، وکیل اور صحافی کے درمیان بات چیت، سابق چیف جسٹس اور وکیل کی آڈیو لیک، کمیشن سوشل میڈیا پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے داماد کی عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے الزامات کی آڈیو لیک، چیف جسٹس کی ساس اور ان کی دوست کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات بھی ہوں گی۔ اس کمشن کی تحقیقات سے آگے بڑھنے کا راستہ مل سکتا ہے۔ پی ٹی آئی نے تو اپنی عادت بنا لی ہے کہ اس نے کسی بھی کام کی ہر حال میں مخالفت ہی کرنی ہے۔ ان کی مخالفت کا اب ایک مطلب یہ بھی لیا جاتا ہے کہ کام ٹھیک ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف والے ہر اچھے کام کی مخالفت کے ماہر ہو چکے ہیں۔

 دوسری طرف 9 مئی کے پرتشدد واقعات نے جہاں ایک عام پاکستانی کو تکلیف پہنچائی ہے وہیں سیاست دانوں نے بھی ان واقعات پر ردعمل دیا ہے۔ بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں نے جماعت سے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لوگ پی ٹی آئی کو چھوڑتے جا رہے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما چوہدری وجاہت حسین نے بھی پارٹی چھوڑنے اور مسلم لیگ (ق) میں واپسی کا اعلان کردیا۔ چوہدری شجاعت حسین نے بھائی وجاہت حسین کا استقبال کیا اور انہیں مسلم لیگ ہاو¿س آنے پر خوش آمدید کہا۔

چوہدری وجاہت حسین کہتے ہیں کہ ملک میں اس وقت توڑنے کی نہیں بلکہ جوڑنے کی سیاست کی ضرورت ہے، مل کر پاکستان کو معاشی مشکلات سے باہر نکالنا ہے۔ پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر سید سعید الحسن نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ وہ پنجاب میں وزیر اوقاف رہے۔ سعید الحسن کہتے ہیں کہ 9 مئی کو اندوہناک واقعات سے مجھے اور حلقے کے عوام کو ذہنی اذیت پہنچی۔ فوجی تنصیبات کو جلایا اور شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس سے پہلے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے نو سابق ایم پی ایز نے پارٹی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے پاک فوج کی حمایت کا اعلان کیا۔ سندھ سے صوبائی رکن اسمبلی عمران علی شاہ نے بھی پارٹی چھوڑ دی۔ پی ٹی آئی کراچی کے صدر آفتاب صدیقی نے تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کر لی۔خیبرپختونخوا میں سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر ہشام انعام اللہ، اقبال وزیر، سابق مشیراطلاعات اجمل وزیر اور سابق ایم این اے عثمان ترکئی بھی جماعت سے علیحدہ ہونےوالوں میں شامل ہیں۔ جلیل شرقپوری بھی چلے گئے۔ شیریں مزاری فیاض الحسن چوہان بھی تبدیلی پارٹی سے الگ ہونے والوں میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ بھی تحریک انصاف سے علیحدہ ہونے والوں میں کئی نام شامل ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت جانے والوں پر دباو¿ اور ٹکٹیں جاری نہ کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے۔ نجانے جب یہ لوگ آتے ہوئے کسی دباو¿ کا شکار تھے یا نہیں بیانات جاری کرنے والے اس بارے بھی بتاتے تو اچھا ہوتا۔ اگر جانے والوں کوٹکٹیں جاری نہیں کی گئیں تھیں اور وہ غیر ضروری تھے تو پھر خود علیحدہ کر دیتے۔ ایسے بیانات کسی بھی سیاسی کارکن کی توہین کے مترادف ہیں۔ 

آخر میں فیض احمد فیض کا کلام

لوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے

چلے بھی آو¿ کہ گلشن کا کاروبار چلے

قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو

کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے

کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز

کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی

تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

Leave a Reply