Imran khan ka siyasi anjam

عمران خان کا سیاسی انجام




نو مئی کو پاکستان کے نئے سیاسی بحران کی کوکھ سے عدم استحکام کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ عمران خان نے گرفتاری کی صورت میں پارٹی کو انتہائی پر تشدد حملوں کی ہدایت دی۔ جیسے ہی عمران گرفتار ہوئے پورے ملک میں مخصوص جگہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی، جناح ہاؤس لاہور، آئی ایس آئی آفس فیصل آباد، سرگودھا ایئر بیس، میانوالی میں کارناموں کی نشانی جہاز، ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت، موٹر وے ٹول پلازہ، نشان حیدر پانے والے شہداء کی تصاویر، انکے مجسمے، شہداء کی یادگاریں اور دیگر سرکاری و نجی املاک پر منظم حملے کئے گئے اور بیشتر کو آ گ لگا دی گئی۔ بلوائیوں کے ہاتھوں بے حرمت و بے توقیر ہونے والی میجر عزیز بھٹی شہید کی تصویر پر بلک بلک کر رونے والی انکی عزیزہ کے دلدوز مناظر بھی دیکھے۔
9 مئی کو سیاسی مخالفین پر کرپشن کے مسلسل الزامات لگانے والے عمران خان کو کرپشن ہی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ عمران کے پاس تو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کرپشن کے ثبوت نہیں تھے لیکن حکومت کے پاس عمران کے کرپشن میں ملوث ہونے کے کافی اور تسلی بخش ثبوت ہیں۔ صرف 190 ملین پاؤنڈ کی کرپشن کا معاملہ ہی لے لیں۔ الزام لگایا گیا ہے کہ عمران اور ان کی اہلیہ بشریٰ نے پاکستان کے ایک رئیل سٹیٹ ٹائیکون سے رشوت کے طور پر ایک یونیورسٹی کے لیے ٹرسٹ کے نام پر اربوں روپے مالیت کی زمین حاصل کی۔
کرپشن کیس میں عمران کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں نے فوری طور پر یہ فرض کر لیا کہ فوج نے عمران خان کی گرفتاری کا حکم دیا۔ چنانچہ گائیڈڈ پر تشدد مظاہروں نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پی ٹی آئی والوں نے جان بوجھ کر سویلین کے ساتھ فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ عمران کے حمایتی جی ایچ کیو پر چڑھ دوڑے، مرکزی دروازے میں گھس کر فوج کی طاقت اور عظمت کے نشان کو بری طرح نقصان پہنچایا۔
پی ٹی آئی کے شرپسندوں نے کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں گھس کر بدترین توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگا دی۔ یہاں تک کہ ایک گملا تک سلامت نہ رہا۔ ایک ڈی آئی جی سمیت ستر سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ امن و امان قائم رکھنے کے لئے اسلام آباد، پنجاب اور کے پی میں پولیس کی مدد کے لیے فوج کو بلایا گیا۔ سپریم کورٹ نے عمران کی گرفتاری کے خلاف آنے والی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے گرفتاری کو غیر قانونی قرار اور عمران کو عدالت کے زیرکنٹرول گیسٹ ہاؤس میں منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔
اپریل 2022 میں پارلیمانی عدم اعتماد کے ووٹ میں اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے، عمران نے فوج اور اتحادی حکومت کے خلاف مہم چلائی اور دونوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ ملی بھگت کر رہے ہیں۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ فوج ان کی مدد کے لیے اپنے آئینی کردار سے باہر نکلے۔ عمران نے الزام لگایا کہ فوج نے انہیں اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے پی ڈی ایم کی مختلف سیاسی چالوں کی حمایت کی ہے۔
عدالت کی طرف سے عمران کی رہائی نے مزید ہیجان پیدا کر دیا۔ اس کے باوجود ملک کے ساتھ آگے کیا ہو سکتا ہے اس کے بارے میں غیر یقینی صورتحال باقی ہے۔ پارٹی کے بیشتر رہنماؤں کو فوج اس کی حساس تنصیبات پر حملے کرنے، پر تشدد کارروائیاں کرنے عوام کو فوج کے خلاف بھڑکانے اور بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جو گرفتار نہیں ہو سکے ان کے خلاف گھیرا مزید تنگ کیا جا رہا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا پی ٹی آئی اپنی قیادت کی نظربندی اور عمران خان کے دوبارہ گرفتار ہونے کے امکانات کے پیش نظر ملک گیر تحریک کو برقرار رکھنے کے لیے جذبات کی لہر کو بروئے کار لاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اب نہیں۔ سیاسی اتھل پتھل کے اس پس منظر میں، پاکستان کو تیزی سے کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر اور بیرونی قرضوں کے زیادہ بوجھ کی وجہ سے شدید معاشی بحران کا سامنا ہے، جس سے ملک اب بھی ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے عمران کی رہائی کے حکم نے فوج اور عدالت کے درمیان تناؤ بڑھا دیا ہے لیکن اب عدالت کی بے جا مداخلت عمران خان کو مستقبل کی قانونی کارروائی میں ڈھال فراہم نہیں کر سکتی کیونکہ عدالت کی عمران خان کے لئے بلا ضرورت حمایت فوج کو مایوس اور ہنگامی اقدامات پر غور کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ حملوں اور مسلسل عدالتی حمایت کے درمیان، سینئر عسکری قیادت پر موجودہ کشیدگی کو کم کرنے اور پی ٹی آئی کو کریک ڈاؤن کے بعد آف ریمپ کرنے کے لئے شدید دباؤ ہے۔ فوجی تنصیبات پر پی ٹی آئی کے شرپسندوں کے حملوں کی وجہ سے ملک بھر میں قومی عزت کی پامالی کا احساس موجود ہے۔
حکومت نے فوج کے ساتھ مل کر، تشدد کو بھڑکانے اور ہدایت دینے پر پی ٹی آئی کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ سیاسی طور پر تنہائی کے شکار عمران خان کو اگر گرفتار کیا گیا اور ملٹری کورٹس میں انکے خلاف مقدمات کی سماعت ہوئی تو کوئی شخص انکی حمایت میں سامنے نہیں آئے گا۔ ایم کیو ایم کی طرح پی ٹی آئی مختلف دھڑوں میں بٹ کر سیاست میں موجود ہو گی۔ ریاست دشمن نظریہ اور سوچ پروان چڑھانے کی وجہ سے ایم کیو ایم سے منفی الطاف حسین کی طرح اب پی ٹی آئی سے منفی عمران خان فارمولا چلے گا۔ یوں عسکری اداروں کے مخالف عمران خان الطاف حسین کی طرح پاکستان کی سیاست سے غیر متعلق (irrelevant) ہو جائیں گے۔ الطاف حسین کی طرح عمران خان کا یہ سیاسی انجام بھی عبرتناک ہو گا۔

Leave a Reply