Ikhtrai maeshhtein

اختراعی معیشتیں 




جدت طرازی اور انٹرپرینیورشپ اب تیزی سے بڑھتی ہوئی عالمی معیشتوں کے کلیدی محرک بن چکے ہیں۔ جن ممالک نے اس کا ادراک کیا ہے اور وہ قومی اختراع اور کاروباری پالیسیوں کے نفاذ کے لئے جارحانہ حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہیں، وہ جدت طرازی کی ترقی کے ذریعے اپنے متعلقہ جی ڈی پی میں زبردست اضافے کے ساتھ تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔آئیے چند مثالوں پر غور کریں۔ فن لینڈ کو جدت طرازی میں عالمی رہنما کے طور پر بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ ملک کی جدت طرازی کی حکمت عملی تحقیق اور ترقی (R&D)، تعلیم، اور انٹرپرینیورشپ میں سرمایہ کاری پر زور دیتی ہے۔ خاص طور پر، فن لینڈ کا تعلیمی نظام ابتدائی عمر سے ہی تخلیقی صلاحیتوں اور تنقیدی سوچ کے کلچر کو فروغ دیتا ہے۔فن لینڈ کی حکومت فعال طور پر سٹارٹ اپس کی حمایت کرتی ہے اور اکیڈمی اور صنعت کے درمیان تعاون کو فروغ دیتی ہے۔ اس جدت پر مبنی نقطہ نظر کے نتیجے میں نوکیا اور رویو انٹرٹینمنٹ جیسی کامیاب فن لینڈ کی کمپنیاں وجود میں آئی ہیں۔ مثال کے طور پر، نوکیا موبائل مواصلات میں عالمی رہنما بن گیا، جس نے فن لینڈ کے جی ڈی پی اور روزگار میں نمایاں حصہ ڈالا۔ ٹیکنالوجی اور علم پر مبنی صنعتوں پر زور نے اس کی اقتصادی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ 5.5 ملین کی چھوٹی آبادی کے ساتھ، اس کی فی کس جی ڈی پی $50,000 سے زیادہ ہے۔ایک اور بہترین مثال ناروے کی ہے جس کی جدت طرازی کی پالیسیاں علم پر مبنی معیشت بنانے اور پائیداری کو آگے بڑھانے پر مرکوز ہیں۔ ملک کے وافر قدرتی وسائل، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، جدت کی بنیاد کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ناروے کی اختراعی حکمت عملی میں قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز میں اہم سرمایہ کاری شامل ہے، جیسے ہائیڈرو پاور اور ونڈ انرجی، جس نے اقتصادی ترقی کو تقویت دی ہے اور کاربن کے اخراج کو کم کیا ہے۔ مزید برآں، تحقیق اور ترقی پر ناروے کی مضبوط توجہ نے تیل اور گیس، ماہی گیری، اور سمندری صنعتوں جیسے شعبوں میں جدت کو فروغ دیا ہے۔ 5.4 ملین کی آبادی کے ساتھ، ناروے کی فی کس جی ڈی پی $89,000 تک پہنچ گئی ہے، جو کہ امریکہ سے زیادہ ہے۔ایک اور سکینڈینیوین ملک جس سے سیکھنا ہے سویڈن ہے جس نے ترقی پذیر سٹارٹ اپ ایکو سسٹم اور انتہائی ہنر مند افرادی قوت کے ساتھ اپنے آپ کو ایک اختراعی پاور ہاؤس کے طور پر قائم کیا ہے۔ سویڈش حکومت سویڈش انوویشن سٹریٹیجی جیسے اقدامات کے ذریعے صنعت، اکیڈمی اور حکومت کے درمیان تعاون کو فروغ دیتی ہے۔جدت طرازی میں سویڈن کی کامیابی کو تعلیم، R&D اور بنیادی ڈھانچے میں اس کی سرمایہ کاری سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ تحقیق اور ترقی کے لئے اس کی مضبوط حمایت نے ٹیلی کمیونیکیشن، بائیوٹیکنالوجی، اور مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں کامیاب کمپنیوں کے اُبھرنے کے قابل بنایا ہے۔ 10.4 ملین کی آبادی کے ساتھ، سویڈن کی جی ڈی پی $61,000 سے زیادہ ہے۔پڑوسی ملک ڈنمارک بھی جدت طرازی کے مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔ ہنر کی نشوونما، تعاون اور کاروباری شخصیت پر اس کے زور نے اقتصادی ترقی کو ہوا دی ہے۔ قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز میں ڈنمارک کی سرمایہ کاری، جیسے ہوا کی طاقت، نے اسے صاف توانائی کے حل میں عالمی رہنما بنا دیا ہے۔ قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز کی برآمد نے برآمدی محصولات اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نیز، ملک کے اختراعی ڈیزائن اور فن تعمیر کے شعبوں نے بین الاقوامی شناخت حاصل کی ہے، سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے اور معیشت کو فروغ دیا ہے۔ ڈنمارک کی فی کس جی ڈی پی $60,000 سے زیادہ ہے۔ایشیا کا رخ کرتے ہوئے، سنگاپور ایک چمکتا ہوا ستارہ بن کر کھڑا ہے۔ سٹی سٹیٹ کی جدت طرازی کی حکمت عملی تین ستونوں پر بنی ہے: علم کی تخلیق، انٹرپرینیورشپ اور کنیکٹوٹی۔ یہ R&D میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے اور تحقیقی اداروں، سٹارٹ اپس اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے درمیان تعاون کو آسان بناتا ہے۔ سنگاپور نے جدت طرازی اور کاروبار کو فروغ دینے کے لئے متعدد تنظیمیں جیسے اکنامک ڈویلپمنٹ بورڈ اورآئی ایم ڈی اے قائم کی ہیں۔سنگاپور کی جدت پر مبنی ترقی پر توجہ نے بائیو ٹیکنالوجی، مالیاتی خدمات اور سمارٹ سٹی حل جیسے شعبوں میں ترقی کو فروغ دیا ہے۔ تقریبا ً5.5 ملین کی آبادی کے ساتھ  کراچی کی ایک چوتھائی  سنگاپور کی برآمدات 400 بلین ڈالر ہیں، اور اس کی فی کس جی ڈی پی 73,000 ڈالر ہے۔ 230 ملین کی آبادی والے پاکستان کی برآمدات تقریباً 32 بلین ڈالر پر پھنسی ہوئی ہیں، جب کہ ہماری فی کس جی ڈی پی 1400 ڈالر کی مایوس کن ہے۔کوریا بھی ٹیکنالوجی اور اختراع میں عالمی رہنما کے طور پر اُبھرا ہے۔ اس کی جدت طرازی کی پالیسیاں الیکٹرانکس، سیمی کنڈکٹرز، آٹوموٹو، اور روبوٹکس جیسی کلیدی صنعتوں کو سپورٹ کرنے پر مرکوز ہیں۔ صنعت، اکیڈمی اور حکومت کے درمیان قریبی تعاون، جسے عام طور پر ٹرپل ہیلکس ماڈل کہا جاتا ہے، کوریا کی اختراعی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ جدت کے ساتھ اس کی وابستگی نے اسے عالمی ٹیکنالوجی کا مرکز بننے پر اُکسایا ہے۔ 1962 میں جنوبی کوریا کی فی کس جی ڈی پی صرف 106 ڈالر تھی  اب یہ 33,000 ڈالر سے اوپر ہے۔چین کی تیز رفتار اقتصادی ترقی کا جدت کے ساتھ اس کے عزم سے گہرا تعلق ہے۔ اعلی درجے کی مینوفیکچرنگ صلاحیتوں کو فروغ دینے اور مصنوعی ذہانت اور 5G جیسی اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری پر اس کے زور نے اس کی اقتصادی ترقی اور عالمی مسابقت کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کی اختراعی پالیسیاں تحقیق اور ترقی، دانشورانہ املاک کے تحفظ اور صنعتی اپ گریڈنگ کو ترجیح دیتی ہیں۔چین کی بڑی مقامی مارکیٹ اور حکومتی تعاون نے جدت کو ہوا دی ہے، جس کے نتیجے میں علی بابا، ٹنسنٹ اور ہواوے جیسی ٹیکنالوجی کمپنیاں عروج پر ہیں۔ چین کی فی کس جی ڈی پی 1962 میں صرف 162 ڈالر تھی۔ آج یہ 12,000 ڈالر سے اوپر ہے۔ تاریخ میں کبھی بھی اتنے لوگوں کی زندگی اتنی جلدی تبدیل نہیں ہوئی۔جدت کی حکمت عملیوں اور پالیسیوں نے فن لینڈ‘ ناروے‘ سویڈن‘ ڈنمارک‘ کوریا‘ سنگاپور اور چین کی اقتصادی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے‘ہر ملک نے اپنی مخصوص طاقتوں اور چیلنجوں کے مطابق منفرد انداز اپنایا ہے۔ فن لینڈ اور سویڈن نے تحقیق‘ تعلیم اور انٹرپرینیورشپ کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ناروے نے اپنے قدرتی وسائل اور پائیداری کے ایجنڈے کا فائدہ اٹھایا ہے‘ ڈنمارک نے تعاون اور انٹر پرینیور شپ پر زور دیا ہے‘پاکستان ان ممالک کی تیز رفتار اقتصادی ترقی سے جو سبق حاصل کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دن اور دور میں کسی بھی ملک کی اصل دولت انسانی وسائل کا معیار اور معیاری تعلیم میں سرمایہ کاری کے ذریعے اس ملک کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کی صلاحیت ہے۔ بشکریہ دی نیوز، تحریر:ڈاکٹرعطا الرحمان،ترجمہ: ابوالحسن امام)

Leave a Reply