Nanhi si jan ky dukh

ننھی سی جان کے دکھ

سچ پوچھئے تو اعتزاز احسن کو دکھی دیکھ کر دل دکھی ہو جاتا ہے۔ ننّھی سی جان اور ایک سال سے دکھی ہے۔ جب سے عمران حکومت ختم ہوئی، ان کی بھوک پیاس بھی ساتھ ہی رخصت ہوئی۔ اپریل کے آخر میں دکھ کا گھونگھٹ اٹھایا اور قدرے جوش میں آئے اور فرمایا، 14 مئی کو ان کا باپ بھی الیکشن کرائے گا۔ ان سے مراد شہباز شریف اور آصف زرداری تھے۔ اتفاق سے دونوں کے باپ زندہ نہیں، مرحوم ہو چکے اور مرحوم ہو چکے لوگ الیکشن نہیں کرا سکتے چنانچہ 14 مئی گزر گئی، الیکشن نہ ہو سکے۔ دکھیارے اعتزاز نے پھر دکھ کی چادر اوڑھ لی اور چند دنوں سے تو بہت دکھی ہیں۔ کل تو اتنے دکھی ہوئے جب پی ٹی آئی سے لوگ قطار اندر قطار ’’خروج‘‘ (EXODUS) کرنے لگے کہ بس پوچھئے مت، رو پڑے۔ محاورۃً ’’نہیں‘‘ سچ مچ، آواز بھرّا گئی، نین نینی تال بن گئے، وہی نینی تال کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے قانوں میں نینی تال، باقی سب تلیّا۔ 




کبھی آنے والوں کا ہجوم تھا، اب جانے والوں کا وفور ہے۔ اعتزاز، ننّھی سی جان بری طرح روپڑی، پھر بلبلائی اور فرمایا، خان صاحب ایک ہی بار سب کو کمرے میں بند کر دیں، پھر بتّی بجھا کر کہیں کہ جس نے جانا ہو چلا جائے۔ تاکہ قصہ ختم ہو۔ کوئی شدّت غم میں اس بری طرح گرفتار ہو جائے تو پھر ایسی ہی سوجھتی ہے جبھی اس ننّھی سی جان کو سوجھی۔ کہاں کی بات کہاں جا ملائی۔ خیر، لیکن ننّھی سی جان کو خبر نہیں کہ خان صاحب ایسا کر چکے ہیں۔ دروغ برگردن راوی، جب زماں پارک دھاوے کی زد میں تھا تو، روایت ہے کہ ، خان صاحب نے ایسا ہی کیا، سب کو کمرے میں بند کیا، چراغ بجھا دیا اور کہا کہ جس نے جانا ہو چلا جائے، مجھے کوئی گلہ نہیں ہو گا۔ کچھ دیر کے بعد خان صاحب نے چراغ پھر سے جلا دیا اور دیکھ کر حیران ہوئے کہ سب کے سب وہیں بیٹھے ہیں، کوئی بھی نہیں گیا۔ خان صاحب کے چہرے پر بشاشت آ گئی اور پوچھا، آپ گئے نہیں۔ یہ سوال سنتے ہی سب رونے لگے اور بیک آواز بولے، کیسے جاتے، کہاں جاتے، باہر چاروں طرف پولیس کھڑی ہے۔ 

________

اعتزاز کی ننّھی سی جان سے بھی زیادہ دکھی ایک بھاری بھرکم جان بھی ہے، دس جانوں کی ایک جان، اتنی بھاری بھرکم کہ ایک تن مت کہیئے، دس تن کہیئے تو سچ کا حق ادا ہو۔ جی، یہ بھاری بھرکم جان راولپنڈی کے شیخو بابا ہیں جو کچھ دنوں سے روپوش ہیں اور روپوشی سے ہی بیانات اور ویڈیوز جاری فرما کر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں۔ ’’خروج‘‘ ۔اپنا غم و غصہ ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ کم بخت عدّت کا خیال بھی نہیں کر رہے، فوراً ہی پارٹی بدل رہے ہیں۔ 

شیخو بابا کی اس تعریض کا رخ کدھر ہے؟۔ شیخو جی یہ عدّت کا خیال نہ کرنے کی ’’بدعت حسنہ‘‘ آپ ہی کے صاحب امر بالمعروف نے ایجاد کی تھی، طعنہ دیتے ہوئے کچھ تو خیال کیجئے اور اس بدعت حسنہ کا ارتکاب کرنے والے انہی کے پیروکار ہیں یعنی صاحب امربالمعروف کی پیروی کر رہے ہیں۔ 

__________

یہی نہیں، شیخو بابا نے ’’تعریض‘‘ کا ایک اور وار بھی کر ڈالا۔ فرمایا کہ یہ لوگ ایسے پارٹی بدل رہے ہیں جیسے بلّو کے گھر جا رہے ہوں۔ ’’کنّے کنّے جاناں بلّو دے گھر‘‘۔شیخو بابا سے زیادہ کون جانتا ہے کہ یہ نیک نام گانا پی ٹی آئی کا ثقافتی ترانہ ہے جسے پارٹی کے معروف ترین ’’صوفی‘‘ سنگر ابرار الحق نے گایا ہے۔ صوفی ابرار الحق کے اس طرح کے ’’روحونیاتی‘‘ گیت اور بھی ہیں۔ ایک گانا شاید اس طرح کا بھی، انہوں نے ، غالباً اپنے حسب حال، گایا کہ جٹ دوڑیا کچہریوں بلّے بھئی بلّے…شیخوبابا کی طرح صوفی ابرار الحق بھی روپوش ہیں۔ سنا ہے روحونیاتی مراقبے کر رہے ہیں، ہمزاد کا پہرہ ہے اس لیے پولیس دھر پکڑنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ 

_________

ویسے شیخوبابا آج کل ہیں کہاں؟۔ مطلب یہ کہ روپوش تو ہیں مگر کہاں؟۔ کہیں دو سو ارب ڈالر باہر سے لانے والے انقلابی مراد سعید کے ہاں تو پناہ نہیں لے رکھی۔ آ شیخ مل کے کریں آہ وزاریاں؟۔ 

شیخوبابا راج نیتی کے منچ کے مہان کلاسیکل کلاکار ہیں۔ راگ رنگ اور ترت بھائو کے گرو مہاراج۔ جب سے غائب ہیں، راج نیتی کا رنگ محل اجڑا پڑا ہے۔ کہاں ہو شیخوبابا، چلے آئو، کوئی نرت کاری دکھائو، کتھک کی چھب دکھا جائو، آپ تو ہتھکڑی کو زیور، جیل کو سسرال کہتے نہیں تھکتے تھے اب ان دونوں سے دوری کیوں؟۔ کچھ زیادہ ہی سنیاس نہیں لے لیا آپ نے؟ 

_________

کبھی کبھی نزدیک کے معنے ٹھیک نہیں ہوتے، مراد دور کے معنے سے ہوتی ہے جیسے 

بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی 

قریب کے معنے یہ ہیں کہ پنگھٹ تک پہنچنا آسان کام نہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔ پنگھٹ تک جانا کٹھن ہے نہ وہاں پانی پھرنا۔ اصل کٹھنائی واپسی کا راستہ لینا ہے۔ کیونکہ راہ میں نندلال یعنی کرشن کنہیا جی کھڑے ہیں، ہاتھ میں غلیلچہ لئے۔ رادھا سمیت جو ناری آئی، نشانہ لیا، اس کی گاگر پھوڑی۔ اور پھر گگریا کے پانی نے بھگوئی ساڑھی ساری کی ساری

موری ساری اناری بھگوئے گیورے 

یہاں اناری (یعنی اناڑی) کے معنے مشّاق The EXPERT کے لئے جائیں۔ تو خیر، کور کمانڈر ہائوس یا جی ایچ کیو ایچ پہنچنا کچھ مشکل نہیں تھا، توڑ پھوڑ بھی سہل تھی اور جھولیاں بھر بھر کے لوٹنا بھی آسان تھا۔ مشکل تب ہوئی جب واپسی کا راستہ لیا، راستے میں جابجا نندلال کھڑے تھے، غلیچے نہیں، ہتھکڑیاں اور مولا بخش لئے ہوئے۔ 

آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے۔ 

________

پی ٹی آئی چھوڑنے والے فیاض چوہان نے انکشاف کیا ہے کہ /14 مئی کو عمران خان نے پارٹی رہنمائوں کی ایک روم کانفرنس بلائی اور سختی سے منع کر دیا کہ کوئی بھی9 مئی کے واقعات کی مذمت نہ کرے۔ چنانچہ کسی نے مذمت نہیں کی۔ 

بعدازاں حالات البتہ حد سے زیادہ دگرگوں ہو گئے اور 9 مئی کی رات کو انقلاب برپا ہونے کی توقع رکھنے والے لیڈر خوفزدہ ہو گئے تو ضرور سب نے باری باری رہی سہی مذمت کی۔ لیکن خان صاحب نے پھر بھی نہیں کی، بس اتنا کہا کہ کون ہے جو مذمت نہ کرے۔ اس ’’مذمت‘‘ پہ کون نہ مر جائے اے خدا!

Leave a Reply