Jthay aur machr

جتھّے اور مچھر 

پارٹی چھوڑ کر جانے والوں میں اسد عمر کا اضافہ دلچسپ ہے۔ ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے پوچھا کہیں وہ بھی رہا ہو کر پریس کانفرنس تو نہیں کریں گے جس پر اسد عمر کے وکیل بابر اعوان نے یقین دلایا کہ نہیں، وہ پریس کانفرنس بالکل نہیں کریں گے۔ رہائی ہو گئی مگر وکیل صاحب کی یقین دہانی غلط نکلی۔ اسد عمر نے چھوٹتے ہی پریس کانفرنس کر ڈالی اور پارٹی کو اس طرح چھوڑا کہ ایک پاﺅں بدستور چوکھٹ کے اندر ہی رکھا۔ کہا وہ پارٹی کے عہدوں (سیکرٹری جنرل اور ممبر کور کمیٹی) سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔ گویا انہوں نے پارٹی میں واپسی کا راستہ کھلا رکھا۔ 




افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ راستہ کھلا نہیں رہا۔ اسد عمر نے ایک غلطی ایسی کر دی جس کی معافی مشکل ہے۔ انہوں نے -9 مئی کے واقعات کی مذمت کر دی۔ اسد عمر صاحب یہ مذمت نہ کرتے تو راستہ کھلا رہنے کا امکان تھا۔ انہیں یاد نہیں رہا کہ ان کے قائد نے ابھی تک مذمت نہیں کی۔ بلکہ صرف یہ سوال کر کے بات ٹال دی کہ کون ہے جو ان واقعات کی مذمت نہیں کرے گا۔ اس سوال کا مجسم جواب وہ خود یعنی قائد محترم ہیں۔ اسد عمر ان کی پیروی کر لیتے، یہی سوال دہرا دیتے کہ کون ہے جو ان واقعات کی مذمت نہیں کرے گا۔ 

__________

واقعات مذکورہ کے بارے میں اداروں کو ثبوت مل گئے ہیں کہ -8 مئی کو ساری منصوبہ بندی اور ہدایات کا عمل زمان پارک کے اندر سے ہو رہا تھا۔ اعجاز چودھری، یاسمین راشد، محمود الرشید، مراد راس، حماد اظہر اور اسلم اقبال مسلسل ٹیلی فون پر ”بلوائیوں“ سے رابطے میں تھے اور انہیں مناسب حکم نامے جاری کر رہے تھے۔ 

قائد محترم اس وقت جیل میں تھے۔ سپریم کورٹ میں شرف زیارت سے مشرف کرتے وقت انہوں نے فرمایا تھا کہ وہ تو جیل میں تھے، انہیں کیا معلوم کہ باہر کیا ہو رہا ہے، لیکن ان کالوں سے پتہ چلا کہ یہ چھ کے چھ ان سے رابطے میں تھے۔ نیب کی حراست میں ایک ”سہولت کار“ پولیس افسر نے انہیں اپنا موبائل فون دیا تھا جسے وہ ”انقلاب“ کے لیے استعمال کرتے رہے۔ یہ پولیس افسر اور اس کا فون اب اداروں کی تحویل میں ہے۔ 

اس وقت خان صاحب نے، عدلیہ کی مودبانہ درخواست کے باوجود مذمت کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ بڑی شان بے نیازی سے یہ ”خبر“ بھی دی کہ اگر انہیں دوبارہ گرفتار کیا تو عوام پھر وہی ردّعمل دیں گے جو -9 مئی کو دیا۔ ایسے ہی جذبات کا والہانہ اظہار انہوں نے اگلے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی کیا۔ اس وقت تک خان صاحب خود کو فاتح سمجھ رہے تھے اور ان کے حامی بھی یہ یقین کئے بیٹھے تھے کہ انقلاب کا پہلا معرکہ انہوں نے جیت لیا ہے، وہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں، گرتی ہوئی دیواروں کو -9 مئی جیسے بس ایک ہی دھکّے کی اور ضرورت ہے لیکن اسی شام سے حالات الٹ ہو گئے اور پھر الٹتے ہی چلے گئے، یہاں تک کہ کل خان صاحب کو یہ کہنا پڑا، یعنی اپنے حامی نوجوانوں کو یہ نصیحت کرنا پڑ گئی کہ اس سے اچھا ہے کہ اب مر جاﺅ۔!!!

__________

اپنے روزانہ کے ”قوم سے خطاب “ میں انہوں نے بتایا کہ ان کا انٹرنیٹ کنکشن کاٹ دیا گیا ہے۔ یہ خطاب البتہ وہ کسی جنّاتی انٹرنیٹ سے کر رہے ہوں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر مجھے قائل کر لیا جائے کہ میرے بغیر ملک بہتر چل سکتا ہے تو میں ”مائنس“ ہونے کے لیے تیار ہوں۔ انہوں نے قائل کرنے کے لیے مذاکرات کی تجویز دی اور اپنی طرف سے ایک مذاکراتی کمیٹی بنانے کا اعلان بھی کر دیا۔ 

تاریخ کی یہ پہلی کمیٹی ہے جو کسی نے خود کو ”مائنس“ کرنے کے لیے بنائی ہے اور تاریخ کے یہ پہلے مذاکرات ہوں گے (اگر ہوئے تو اور ہونے کا امکان نظر نہیں آ رہا ہے) جو کسی نے خود کو مائنس کرنے کے لیے رکھے ہوں گے۔ 

خان صاحب کا خیال ہے، مائنس کرنے کے عمل کو مذاکرات کے ذریعے سے مکمل ہونا چاہیے۔ لیکن یہ ان کا خیال ہے۔ صاحب نظراں دیکھ رہے ہیں کہ وہ کسی مذاکرات کے بغیر ہی مائنس ہو چکے ہیں۔ 

__________

پرانے پاکستان میں پرانا اسلام تھا جس کے تحت خودکشی حرام تھی۔ خان صاحب کے نئے پاکستان میں خودکشی نہ صرف حلال بلکہ بہتر عمل ہے۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں بالخصوص نوجوان پیروکاروں کو خودکشی کی نصیحت کی ہے یا حکم دیا ہے یعنی یہ مشورہ واجب العمل ہے یا اختیاری؟۔ مطلب بائینڈنگ یا آپشنل۔ ان کے فرمان امروز کے الفاظ یہ تھے: بہتر ہے کہ تم مر جاﺅ“ 

قیاس غالب یہ ہے کہ ان کے پیروکار اسے ”آپشنل“ لیں گے۔ 24 گھنٹے گزر چکے، ابھی تک خودکشی کی کوئی خبر نہیں آئی۔ وہ غیر سیاسی یعنی معاشی تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشی کرنے والے بھی کل اس عمل سے باز رہے۔ یعنی صاحب امربالمعروف کا یہ حکم تو رائیگاں گیا۔ 

__________

خان صاحب جس بات کو نہیں سمجھ سکے وہ یہ ہے کہ جتھّے حکومت اور ریاست کو پریشان تو کر سکتے ہیں، دباﺅ میں نہیں لا سکتے۔ 

جتھّے کی مثال مچھر جیسی ہے، مچھر نیند حرام کر سکتا ہے، جس میں جلن اور کھجلی کا بازار گرم کر سکتا ہے لیکن دباﺅ میں نہیں لا سکتا۔ الٹا مچھر کی جتھہ بندی سے تنگ آدمی مچھر مار سپرے کر ڈالتا ہے ۔ اور اب یہی ہو رہا ہے۔ 

حکومت اور ریاست کو دباﺅ میں لانے کا ایک ہی طریقہ ہے، وسیع عوامی مظاہرے۔ اتفاق دیکھئے، ایک سال کے دوران خان صاحب نے ان گنت اپیلیں عوام سے کیں کہ وہ باہر نکلیں، سڑکوں پر آئیں لیکن ایک بار بھی عوام باہر نہیں آئے، صرف جتھے آئے۔ کسی بھی شہر میں ان کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں تھی۔ -9 مئی کو ان جتھوں نے آگے کا کھیل کھیلا اور اس آگ نے انہی کو نگل لیا۔ 

Leave a Reply