Holnaki aur mayusi

ہولنا کی اور مایوسی




پاکستان فکری و عملی طور پر عظیم الشان تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ ہماری سیاست اور اس کی کمزوریاں کھل کر سامنے آچکی ہیں۔ ہماری ریاست اپنوں ہی کی دشمنیوں کا شکار ہے۔ عدلیہ منقسم ہو چکی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہو چکی ہے، اس کی کریڈیبلیٹی مشکوک ہوچکی ہے۔ فوج اپنے ماضی سے تائب ہونے کا اعلان کر کے نیوٹرل ہو چکی ہے۔ قومی معیشت شدید اضطراب اور دباؤ کا شکار ہے۔ عالمی قرضوں نے معاملات دگرگوں کر رکھے ہیں۔ قرض خواہوں کی پالیسیوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ عالمی سیاست میں تبدیلیوں کے اثرات، خطے کی سیاست پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ امریکہ، چین کے خلاف صف بندی اور ناکہ بندی کر رہا ہے۔ ہم ابھی تک طے نہیں کر پا رہے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کس کے ساتھ ہیں؟ ہمارے قومی مفادات کیا ہیں؟ مہنگائی نے عوامی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ حالات مکمل طور پر نامساعد نظر آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے 9اور 10مئی کو ریاست پر حملہ آور ہو کر ریاستی و حکومتی کمزوریوں کو مکمل طور پر عیاں کر دیا ہے۔ جہاں عمران خان کی منفی سیاست برگ و بار لاتی نظر آنے لگی ہے وہاں ریاستی اور حکومتی کمزوریاں بھی عیاں ہو چکی ہیں۔ عوام میں مکمل طور پر مایوسی اور ناامیدی نظر آرہی ہے۔ ہمارا قومی وجود شدید خطرات میں گھرا ہوا نظر آرہا ہے۔
فکری اور نظری طور پر پھیلاؤ انتشار اپنی جگہ مسلم ہے۔ فکری طور پر یکسوئی نہیں پائی جاتی ہے۔ حکومت 13/14جماعتوں کا ملغوبہ ہے۔ متضاد سیاسی و عملی افکار رکھنے والی جماعتیں 13/14 مہینوں سے پاکستان پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ انہیں ہر وقت اپنی بقا کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ شہباز شریف ایک اچھے، فعال اور کہنہ مشق ایڈمنسٹریٹر کے طور پر معاملات کو ممکنہ حد تک آگے بڑھا رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت بھی اتحادی حکومت کے ساتھ مل کر خارجہ محاذ پر قومی سلامتی کے معاملات احسن انداز میں لے کر چکی رہی ہے۔ اسحاق ڈار کا جادو نہیں چل سکا۔ وہ نہ تو ڈالر پر قابو پا سکے ہیں اور نہ ہی آئی ایم ایف کو زیر دام لا سکے ہیں، ان کی معاشی حکمت کاری عوام کے لئے کسی قسم کا ریلیف لانے میں قطعاً ناکام ہو چکی ہے لیکن ایک اچھی بات ہے کہ پاکستان کی قومی معیشت کے معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں پہنچے ہیں۔ ہم چلتے ہی جا رہے ہیں اور بجٹ 2023-24پیش کیا جائے گا جس کے بارے میں مثبت اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ ویسے اتحادی حکومت کی کارکردگی عوامی نظریے کے حوالے سے انتہائی مایوس کن تصور کی جا رہی ہے۔ مہنگائی، مہنگائی اور مہنگائی نے معاملات دگرگوں کر رکھے ہیں۔ ہم زرعی ملک ہیں اور روٹی، آٹا ہی ہمارے بس میں نہیں ہے۔ دالیں، سبزیاں، گوشت وغیرہ بھی جو ہماری اپنی پیداوار ہیں، عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ عام آدمی کا عملاً دیوالیہ نکل چکا ہے۔ عام شہری کی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ روزمرہ کے مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ عام شہری مکمل طور پر مایوسی کا شکار نظر آرہا ہے۔ عوام کے مسائل کی کچھ وجوہات تو حقیقی ہیں جیسے عالمی معاشی تنزلی اور یوکرائن کی جنگ نے ہمارے معاشی معاملات کو دھچکا لگایا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے ایک طرف آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کرنے میں دیر لگائی جس کے باعث ہماری معاشی حالت میں خرابی پیدا ہوئی اس پر مستزاد، آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے بعد، اس سے طے کردہ شرائط کے برعکس معاملات کرنا شروع کر دیئے جس سے آئی ایم ایف ناراض ہوا۔ ہماری عالمی ریٹنگ متاثر ہوئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر شدید متاثر ہوئے پھر 9/10اپریل 2022ء میں جو سیاسی بحران شروع ہوا اس نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ معیشت پہلے ہی مسائل میں گھری ہوئی تھی۔ سیاسی کشمکش بھی جاری تھی۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی نے ایک نئی سیاسی ہلچل کو فروغ دیا۔ ایسے حقیقی اسباب نے ہماری معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے پھر حکومتی کارکردگی، ریاستی کمزوری اور سرکاری اداروں کی نااہلی اور ناکارکردگی نے معاملات کو بے لگام کر رکھا ہے جن کے باعث مہنگائی بڑھتی ہوئی چلی جا رہی ہے۔ طلب و رسد میں عدم توازن کے باعث معاملات شدید بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کئی حقیقی اسباب و عوامل کے باعث اشیاء خورونوش مہنگی ہیں لیکن مارکیٹ میں حکومتی رٹ کی عدم موجودگی اور مافیاز کی حکمرانی نے معاملات کو سوھان روح بنا دیا ہے۔ ہمارے پاس گندم کا ذخیرہ ہماری ضروریات سے زیادہ موجود ہے۔ اشیاء خورونوش کی کمی نہیں ہے لیکن مارکیٹ میکانزم پر مافیاز کے کنٹرول کے باعث قیمتیں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔
سب سے اہم مسئلہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی اور گیس کے ریٹس ہیں۔ بجلی و گیس کی بڑھتی قیمتیں ایک اہم مسئلہ ہے لیکن اس سے بڑا تکلیف دہ مسئلہ بجلی و گیس کی دستیابی ہے۔ حکومت قیمتوں کے مسئلے پر تو عوام کو کبھی مطمئن نہیں کر سکی ہے اور یہ مسئلہ اب اس قدر گھناؤنا ہو چکا ہے کہ حکومت اس حوالے سے مکمل طور پر بے حسی کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے جبکہ عوام اس ظلم کے عادی ہو کر بے حسی کا شکار نظر آنے لگے ہیں لیکن بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے عوام کی بے چینی و بے اطمینانی اپنی جگہ قائم ہے۔ نرخوں کے حوالے سے عوام کو مہینے میں ایک دفعہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب انہیں ماہانہ بل وصول ہوتا ہے لیکن لوڈشیڈنگ ایسا معاملہ ہے جو صبح، دوپہر، شام ہر وقت ہر آن بھگتنا پڑتا ہے۔ ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے لیکن اس حوالے سے ان کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی ہے۔ بجلی کے میٹر کی قیمت صارف ادا کرتا ہے، اس کی تنصیب کے اخراجات بھی صارف اٹھاتا ہے اس کے باوجود میٹر کا کرایہ ہر مہینے وصول کیا جاتا ہے۔ ملک کی کوئی عدالت کوئی اتھارٹی، محکمے کی اس بدمعاشی کا حساب لینے پر تیار نہیں ہے۔ اسی طرح کی صورتحال گیس صارفین کے ساتھ ہو رہی ہے ان سے 40روپے ماہانہ میٹر رینٹ وصول کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسے بڑھا کر 500روپے ماہانہ کر دیا گیا ہے کوئی اس صریحاً زیادتی کا نوٹس لینے والا نہیں ہے۔ایسی مجموعی صورتحال میں عمران خان نے 9/10مئی کو جو کچھ کیا ریاستی رٹ کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ سرخ لائن کراس کر کے پیغام دیا کہ ریاست و حکومت کہیں بھی نہیں ہے۔ دو دن انارکی اور خانہ جنگی کی صورتحال نظر آئی۔ اب ریاست جو کچھ کر رہی ہے وہ لکیر پیٹنے کے مترادف لگ رہا ہے۔
ملک معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر انارکی کا شکار نظر آرہا ہے۔ دشمن قوتیں اس حوالے سے چوکس ہیں۔ وہ کیا سوچ رہی ہیں، کیا کرنے جا رہی ہیں، کیا کر سکتی ہیں یہ سب کچھ سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ حالات فکری طور پر انتشار و افتراق کا شکار ہیں۔ ادارہ جاتی کشمکش بھی واضح ہے۔ عوام پریشان ہیں۔ دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے۔

Leave a Reply