Tarikh bht zalim, kbhi muaf nhi krti

تاریخ بہت ظالم ،کبھی معاف نہیں کرتی




افراد کو قانون کا پابند ہونا چاہیے۔ جرمنی میں ہٹلر نے افراد کے حقوق کو ریاست کے ماتحت کر کے اپنی سخت پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لئے پولیس اور عدالتوں کا ایک مضبوط جال بچھایا اور افراد کو اپنے بنائے گئے سخت گیر قوانین کا پابند کیا۔ابتدا میں نازی امن و امان کی پالیسی اپوزیشن کو کم کرنے اور ختم کرنے پر مرکوز تھی۔بعد میں پورا جرمن معاشرہ اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ہٹلر کو معلوم تھا کہ زیادہ تر جرمنوں نے اسے ووٹ نہیں دیا تھا چنانچہ اس نے سیاسی مخالفت اور مزاحمت کرنے والوں سے نمٹنے کے لئے سخت قوانین بنائے۔جرمنی اس نازی معاشرے کی تشکیل کے عمل کو Gleichscha Latungکہتے ہیں جس کا مطلب ہے ’’جبری ہم آہنگی‘‘ اس جبری ہم آہنگی کے نتیجے میں نازی جرمنی ایک پولیس ریاست میں تبدیل ہو گیا۔یہ ان وسیع اختیارات کے ذریعے ممکن ہوا جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تفتیشی ایجنسیوں کو دیے گئے تھے۔ان میں سے گسٹاپو جیسی کچھ تنظیمیں ڈرانے دھمکانے تشدد اغوا اور ماورائے قانون قتل کے لئے بدنام تھیں، دوسری کم معروف Sicher Hefitsdienstجیسی تنظیمیں بھی کم خوفناک نہیں تھیں۔جرمنی کے شہریوں کو گسٹاپو اور ایجنسیوں کے ذریعے قانون کا پابند بنایا جانے لگا، ان کے حقوق سلب کر لئے گئے۔نازی بیورو کریسی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں میں تقسیم کار اور ذمہ داریوں کی اچھی طرح سے وضاحت نہیں کی گئی تھی، جس کی وجہ سے ان کا آپس میں overcapتھا،جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتے تھے اور بعض اوقات ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بھی کرتے تھے۔اپریل 1933ء میں جرمن گوئرنگ کے ذریعے گسٹاپو کو قائم کیا گیا جس میں زیادہ تر Prussianپولیس سروس کے لوگوں کو بھرتی کیا گیا تھا، ایک سال کے بعد اسے ہنرک ہملر کی کمان میں دے دیا گیا، پھر جب 1936ء میں تمام جرمن پولیس ہملر کے ماتحت کر دی گئی، تو گسٹاپو ایک قومی ایجنسی بن گئی۔جس کے ذمے نازی رہنمائوں کے مخالف افراد کی جاسوسی کرنا‘ ان پر غداری کے مقدمات قائم کرنا اور انہیں قتل کرنا شامل تھا۔گسٹاپو کو وسیع اختیارات دیے گئے تھے وہ عدالتوں اور قوانین سے باہر رہ کر کام کر سکتے تھے۔بغیر وارنٹ کے تلاشی لے سکتے تھے دیواریں پھلانگ کر گھروں میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کر سکتے تھے‘بغیر کسی روک ٹوک کے ہر طرح کے غیر انسانی تفتیشی حربے استعمال کر سکتے تھے اور بغیر کسی مقدمے کے کسی کو بھی حراست میں لے سکتے تھے، ابتدا میں گسٹاپو کے 5000ایجنٹ تھے، مگر تین چار سال میں ان کی تعداد 45000تک پہنچ گئی تھی۔گسٹاپو کے علاوہ سفید کپڑوں والی پولیس تھی، جسے کرپو کہا جاتا تھا۔اس کے اقدامات کا عدالتیں جائزہ لے سکتی تھیں کرپو روایتی پولیسنگ کے طریقہ کار پر عمل کرتی تھی۔یونیفارم میں ملبوس پولیس بھی تھی جس کا نام Orpoتھا اورپو بٹالین ٹریفک پانی کی حفاظت اور پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے تعینات کی جاتی تھی آگ بجھانا اور ہوائی حملے کے دوران احتیاطی تدابیر کو منظم کرنا مواصلاتی سہولیات مہیا کرنا اہم فیکٹریوں کے لئے رات کی چوکیداری کا کام کرنا اس کے ذمے تھا۔1933ء سے پہلے جرمن عدالتیں آزاد تھیں ان کو اس قدر دھمکیاں دی گئیں کہ جرمنی کے ججوں‘ وکلاء اور قانونی ماہرین نے نازیوں کے مطالبات اور توقعات کو قبول کر لیا۔نازیوں نے عدالتی نظام کو تبدیل نہیں کیا بلکہ پورے کا پورا عدالتی نظام نازیوں کے حق میں ہو گیا۔جج نازیوں کے مطابق ہو گئے جج گسٹاپو کے اقدامات پر نہ تو سوال کرتے تھے اور نہ ہی تنقید۔بلکہ نازیوں کے مطالبات کی روشنی میں ان کے سیاسی مخالفین کو سخت سے سخت سزائیں دینے لگے۔ایک نازی پرست اخبار کے اداریے نے کولون کے جج کو ایک ادھیڑ عمر کی عورت کو کچھ پردے کچھ کپڑے اور کافی کے تین ڈبے چوری کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنانے پر مجبور کر دیا کبھی کبھی کوئی جج ہمت کرتا اور آزادانہ فیصلہ کر دیتا۔1937ء میں ایک جج نے ایک بوڑھی دادی کو رہا کر دیا، جس نے ہٹلر کو ’’آرش فاٹکر‘‘ ہم جنس پرست کہا تھا اور اس جرم میں اس معمر خاتون کو اٹھا لیا گیا تھا۔ سیاسی جرائم سے نمٹنے کے لئے وہ عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ خصوصی عدالتیں اور ووکس گیریچٹشوف عوامی عدالتیں پہلی عدالت 1933ء میں قائم کی گئی اور دوسری عدالت ایک سال کے بعد ہٹلر کو اس بات پر غصہ تھا کہ REICHSTAGفائر کیس میں عدالتوں نے متعدد ملزمان کو بری کر دیا تھا دونوں نازی عدالتیں ENABLING ACTکے تحت قائم کی گئیں جو جرمنی کے مروجہ عدالتی نظام اور قانونی دائرہ اختیار سے باہر کام کرتی تھیں۔دونوں کا کام سیاسی جرائم سے نمٹنا تھا جنہیں ان عدالتوں کے جج WEHKRAFTZERSETZUNG یعنی ناقابل دفاع جرائم سمجھتے تھے ،ان میں ہٹلر یا حکومت پر تنقید کرنا‘ کام کے بارے میں احتجاج کرنا غداری جاسوسی اور تخریب کاری جیسے جرائم شامل تھے۔ عدالتیں مروجہ قانونی طریقہ کار سے ماورا تھیں جرم ثابت ہونے تک بے گناہ کا تصور نہیں تھا PEERSکے ذریعے ٹرائل گواہوں سے جرح کرنے کا حق اور اپیل کا حق یا نظرثانی کا حکم نہیں تھا، ان عدالتوں کے اکثر ٹرائلز میں ایک شخص ہی جج جیوری اور کورٹ ریکارڈر کے طور پر کام کرتا تھا دوسری عالمی جنگ چھڑنے کے بعد نازی عدالتوں کا طرز عمل مزید خراب ہو گیا۔1942ء سے ووکس گیریچٹشوف عدالتوں کا سربراہ رونلڈ فریسلر تھا جو نازی ازم اور ہٹلر کا مکمل وفادار تھا جو اپنی جارحانہ شخصیت مدعا علیہان کی تذلیل کرنے اور سزائے موت کا اکثر استعمال کرنے کے لئے جانا جاتا تھا۔ 3فروری 1945ء کی صبح فریسلر اپنی عدالت میں تھا جب یو ایس ایئر فورس کے بمباروں نے برلن پر حملہ کیا لیفٹیننٹ کرنل رابرٹ روزینتھل کے B-117نے حکومتی اور نازی پارٹی کی عمارتوں کو نشانہ بنایا بشمول ریخ چانسلری گسٹاپو ہیڈ کوارٹر پارٹی چانسلری اور فریسلر کی عدالت صبح گیارہ بج کر آٹھ منٹ پر بم عمارت پر گرا۔اس سے پہلے تمام قیدی اور عملہ حفاظتی تہہ خانے میں جا چکے تھے مگر فریسلر اپنی فائلیں اور کاغذات سمیٹے میں مصروف تھا کہ عمارت کا ستون اس پر گرا جس کی وجہ سے وہ کچل کر فوری طور پر ہلاک ہو گیا اس کے بعد عمارت کا بڑا حصہ بھی اس کی لاش پر آن گرا۔فریسلر نے 5000سے زائد جرمنوں کو بغیر کسی فیئر ٹرائل کے موت کے گھاٹ اتارا تھا۔اس کے عدالتی مظالم کی داستانیں جرمنی کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے مرقوم ہو گئیں لوگ آج بھی اس کا نام نفرت سے لیتے ہیں۔ ان عدالتوں کی کچھ سماعتیں تو حیران کن رفتار سے چلیں۔اس کی مثال سفید گلاب تحریک کے طلباء سے متعلق ہے۔ 22فروری 1943کی صبح طلباء کے ایک گروپ کو میونج یونیورسٹی میں جنگ مخالف کتابچے تقسیم کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا، ان میں سے 21سالہ طالبہ سوفی شول سمیت تین پر مقدمہ چلایا گیا اور ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں مجرم ٹھہرا کر چھ گھنٹے کے بعد تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اس نے بچوں کو بھی نہیں بخشا۔1942ء میں ہیمبرگ میں 16سالہ ہیلمتھ ہیوبنر کو جنگ مخالف پمفلٹ تقسیم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور غدار قرار دے کر سر قلم کر دیا گیا۔ فریسلر کی لاش کو برلن کے والڈ فریڈہوف ڈبلم کے قبرستان میں اس کی اہلیہ کے خاندان میں دفن کیا گیا اور عوام کے غیض و غصب سے بچانے کے لئے قبر کے پتھر پر اس کا نام درج نہیں کیا گیا نہ تو تاریخ نے اس کو معاف کیا اور نہ ہی لوگوں نے۔ ہیز فلاڈا کے ناول EVERY MAN DIES ALONEجو 1947ء میں چھپا فریسلر ایک خوفناک افسانوی کردار میں نمودار ہوا، میرے علم کے مطابق اب تک وہ کم از کم سات بار سکرین پر نمودار ہو چکا ہے۔1948ء میں جرمن ٹیلی وژن فلم WANN SEEKON FERENZ‘1989ء میں بنائی گئی اینگلو جرمن فرانسیسی فلم RE- UNION‘1996ء میں برٹش ٹیلی ویژن فلم WITNESS AGAINT HITLER‘2001ء میں بی بی سی کی فلم COMSPIRACY‘2005ء میں بنائی گئی فلم SOPHIE- THE FINA DAYS‘2008ء میں بنائی گئی فلم VALKYRIEاور 2012ء میں بنائی گئی فلی ویژن فلم ROMMELمیں اس کو ایک مکروہ کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے دنیا میں آج کل کے FREISLERSکے لئے فریسلر کا یہ پیغام ہے کہ تاریخ بہت ظالم ہے کبھی معاف نہیں کرتی۔

Leave a Reply