Mulk ko muhabat ky byany ki zrurat!!!!

!!!!ملک کو محبت کے بیانیے کی ضرورت

نو مئی کے واقعات تکلیف دہ تو ہیں، ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا ملنا بھی ضروری ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جن لوگوں نے ملکی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور دشمن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ان سے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ صحت مند معاشرے کی تشکیل کیسے ممکن ہے، نفرت، انتقام اور تشدد کے جذبات کو کیسے بتدریج کم اور ختم کرنا ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ گذشتہ چند برسوں کی سیاست کا انداز کیا تھا۔ کیا اس انداز سیاست سے ملک کی خدمت ہوئی ہے، کیا لوگوں کا طرز زندگی بلند ہوا ہے، کیا ملک کے مسائل کم ہوئے ہیں۔ اگر گذرے ہوئے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ گذرے چند برسوں میں پاکستان کی سیاست پر الزامات، بدتہذیبی، بد اخلاقی، لعن طعن اور تذلیل کا عنصر نمایاں رہا۔ بالخصوص پاکستان تحریک انصاف نے یہ راستہ اختیار کیا اور وہ اس معاملے میں تمام حدوں کو پار کر گئے۔ نفرت اور انتقام کی اس سیاست کا انجام نو مئی کو ملک کی شناخت اور وطن کی حفاظت کے لیے جان قربان کرنے والوں کی بے حرمتی کی صورت میں سامنے آیا۔ ان واقعات کو سیاسی سمجھنا سنگین غلطی ہو گی۔ یہ بلاشبہ اقتدار کی جنگ تھی اس جنگ میں معصوم ذہنوں اور سادہ لوگوں کو استعمال کیا گیا جبکہ ایک طبقے نے اسے سٹیٹس کے طور پر استعمال کیا۔ لوگوں نے حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے مقبولیت کا ساتھ دیا۔ درست کو غلط اور غلط کو درست کہنے کا سفر جاری رہا اور اس کا نتیجہ نو مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات کی صورت میں سامنے آیا جب لوگوں نے ایک سیاسی رہنما کی گرفتاری کو “انا” کا مسئلہ بناتے ہوئے، الفاظ کے ہیر پھیر کا شکار ہوئے اور کسی کی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھے۔ یہ سب کچھ اس نفرت اور انتقام کے بیانیے کا نتیجہ تھا۔ آج دیکھیں لیں وہ جو چند برس پہلے تک ایک گیند سے تین تین وکٹیں گرانے کا اعلان کرتے تھے آج سارا سٹیڈیم انہیں چھوڑے جا رہا ہے۔ پویلین سائیں سائیں کر رہا ہے۔ ملک بھر سے جان دینے کا دعوی کرنے والے چند گھنٹوں میں خدا حافظ کہہ کر راہیں جدا کر رہے ہیں، کپتان اوپن ٹرائلز لینا چاہتا ہے لیکن کوئی ٹرائلز کا حصہ بننے کے لیے ہی تیار نہیں ہے۔ کھلاڑی ناصرف گراونڈ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں بلکہ آئندہ کسی کھیل کا حصہ بننے سے بھی انکاری ہیں۔ یہ نفرت کا انجام ہے، یہ جھوٹ کا انجام ہے۔ یہ تشدد کے بیانیے کا انجام ہے۔




سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب نفرت کا بیانیہ مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، مولانا فضل الرحمان اور دیگر سیاسی جماعتوں نے عوام کے سامنے رکھنا ہے، کیا نفرت کے بیانیے کا بھیانک انجام سب کے سامنے نہیں ہے۔ کیا نفرت پر مبنی گفتگو انتقام کے جذبے کو نہیں بڑھاتی، کیا تمام سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کے اس منفی بیانیے کا شکار نہیں بنیں۔ کیا معاشرے میں موجود عدم برداشت نفرت آمیز بیانیہ یا سوچ ختم ہو سکتی ہے۔ ہرگز نہیں بالخصوص نو مئی کے دلخراش واقعات کو دیکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو نفرت، انتقام، عدم برداشت اور پرتشدد سیاسی بیانیے کے حوالے سے سبق سیکھنا چاہیے۔ گذرے دنوں میں عمران خان سیاسی حریفوں کو نشانہ بناتے تھے اب ان کے سیاسی حریف عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر زبانی حملے کر رہے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہدف تو اپنے ہی لوگ بنتے ہیں۔ ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اب وقت آن پہنچا ہے کہ ملک میں طرز سیاست کو بھی بدلنا چاہیے۔ پی ڈی ایم حکومت میں ہے۔ اسے ہر وقت عمران خان پر گفتگو کرتے رہنے کے بجائے ملک و قوم کو درپیش مسائل حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ لوگوں کو محبت کا پیغام دیں، جو بہک گئے تھے انہیں اپنائیت کا احساس دینا چاہیے، جو جذبات کی رو میں بہہ گئے ان کے بارے قانون کو اپنا راستہ بنانے دیں جنہیں سزا ہوتی ہے سزا مکمل کرنے کے بعد انہیں معاشرے کے لیے کارآمد بننے کا راستہ فراہم کریں۔ اس ملک کو اس مصیبتوں ماری قوم کو محبت کی ضرورت ہے۔ اس قوم کو پیار کی ضرورت ہے۔ اس قوم کے احساس محرومی کو دہائیوں سے اقتدار کے کھلاڑیوں نے استعمال کیا ہے۔ اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ لوگوں کو کسی سے نفرت کے نام پر اکٹھا کرنے کے بجائے ہم وطنوں سے محبت کے نام پر اکٹھا کرنا زیادہ بہتر ہے۔ لوگوں کو سکھائیں کہ آزادی کا مطلب صرف توڑ پھوڑ اور جلاو¿ گھیراو¿ نہیں ہے۔ آزادی برقرار رکھنے کے لیے بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حدود میں رہنا پڑتا ہے۔ یہ کام سیاسی قیادت کا ہے کہ وہ نوجوانوں میں، شہریوں میں محبت کے پیغام کو عام کرے۔ نفرت کے بیانیے پر ووٹ بینک بڑھانے کا تجربہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے اب ملک کو محبت کے بیانیے کی ضرورت ہے۔ جو ہو چکا وہ بدلا تو نہیں جا سکتا لیکن ہم اس سے سبق حاصل کر کے اپنا مستقبل تو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس معاملے میں بلاول بھٹو زرداری کا شہباز شریف کے کام کو سراہنا خوش آئند ہے کراچی میں پانی کے منصوبے کے فور کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پانی ہر شہری کا مطالبہ ہے، کراچی کو بھی شہباز سپیڈ کی ضرورت ہے، کراچی پر توجہ دیں تو آئی ایم ایف سے نجات مل سکتی ہے۔ اگر بلاول بھٹو زرداری میاں شہباز شریف کی تعریف اور ان کہ صلاحیتوں کا اعلانیہ اعتراف کر سکتے ہیں تو دیگر سیاسی جماعتوں اور قائدین کو بھی اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ ہم ہر وقت دوسروں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں کچھ لوگوں کی کامیابیوں کے اعتراف اور صلاحیتوں کی تعریف میں گذاریں تو یقینا نفرت کی بوئی ہوئی فصل کے اثرات جلد ختم ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے موجودہ حالات سب سے بڑا سبق ہیں اگر یہ دونوں جماعتیں عوام کی خدمت کریں اور ایمانداری سے ملک چلائیں تو ہمیں قرضوں سے نجات بھی مل سکتی ہے۔ یہ موقع ہے ہم خود کو بدل لیں اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو خود کو بدلنا ہو گا اور تبدیلی کا یہ سفر قیادت سے شروع ہو کر ہی عام آدمی تک پہنچ سکتا ہے۔

آخر میں ساغر صدیقی کا کلام

وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو

ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو

یہ کناروں سے کھیلنے والے

ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو

بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے

ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو

آج ہم بھی تری وفاو¿ں پر

مسکرائیں تو کیا تماشا ہو

تیری صورت جو اتفاق سے ہم

بھول جائیں تو کیا تماشا ہو

وقت کی چند ساعتیں ساغر

لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو

Leave a Reply