Abrarulhaq ki nai jind jan

ابرارالحق کی نئی جند جان

ترکی کے صدارتی الیکشن میں صدر رجب طیب اردگان نے کامیابی حاصل کر لی اور ان کی فتح کا جشن جتنے زور و شور سے ترکی میں منایا گیا، ویسے ہی زور و شور سے آذر بائیجان اور فلسطین میں منایا گیا جبکہ پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت بہت سے مسلمان مالک کی اسلامی سیاسی  تحریکوں نے بھی بہت زیادہ خوشی ظاہر کی۔ اردگان سیکولر ملک ترکی میں اسلامی نظرئیے اور شناخت کے علمبردار ہیں اور ان کی مدمقابل متحدہ اپوزیشن سیکولرزم اور لبرل ازم کی علمبردار ہے۔ 




اردگان 20 برس سے مسلسل ترکی کے صدر چلے آ رہے ہیں لیکن حالیہ انتخابی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ترکی کے ووٹر اسلامیان اور سیکولر عناصر کے تقریباً برابر برابر کے دھڑوں میں منقسم ہیں۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں اردگان اکثریت حاصل نہیں کر سکے تھے، اعشارہ پانچ فیصد سے پیچھے رہ گئے تھے جس پر رن آف الیکشن ہوا۔ پہلے مرحلے میں اردگان نے 52.18 اور ادگلو نے 47.82 فیصد ووٹ لئے۔ تیسرے امیدوار کے 5 فیصد ووٹ گویا دونوں میں تقسیم ہو گئے۔ 

اردگان کے لیے یہ بات باعث تشویش ہو سکتی ہے کہ تمام کرد اکثریتی علاقوں سے ووٹوں کی بھاری اکثریت اپوزیشن کے امیدوار کو پڑی۔ اسی طرح استنبول اور دارالحکومت انقرہ کے علاقوں سے بھی ادگلو ہی جیتے۔ جب اردگان پہلی بار برسراقتدار آئے تھے تو انہوں نے کرد آبادی کے بعض غصب شدہ حقوق بحال کئے تھے۔ کردوں کو اپنی زبان بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ جو بھی کرد زبان میں بات کرتا پکڑا جاتا، عمر بھر کے لیے جیل ڈال دیا جاتا۔ اردگان نے کردوں کی زبان کو تسلیم کیا اور یہ سزا ختم کر دی۔ کردوں کی نقل و حرکت پر اور بھی پابندیاں اٹھا لیں جن پر کرد علاقوں میں ان کے لیے حمایت بڑھی لیکن بعدازاں شام کی صورتحال کی وجہ سے کردوں پر پھر سے سختی برتی جانے لگی۔ بہت بمباریاں بھی ہوئیں اور گرفتاریاں بھی۔ اس وجہ سے کرد آبادی ایک گروہ کے طور پر سیکولر اپوزیشن سے جا ملی۔ 

ترکی میں اردگان کی فتح سے تمام خلیجی عرب ممالک اور مصر سخت پریشان ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اردگان حکومت کی وجہ سے ان ملکوں میں کالعدم مگر موجودہ اخوان المسلمون کو تقویت ملے گی۔ واضح طور پر مصر سب سے زیادہ پریشان ہے جہاں اخوان نے 51 فیصد ووٹ لے کر اپنی حکومت بنائی تھی جسے ایک سال بعد ہی فوج نے ختم کر کے مارشل لا لگا دیا تھا۔ اس کے بعد سے اخوان کے سینکڑوں رہنمائوں اور کارکنوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، دسیوں ہزار جیل میں ہے۔ ایک اجتماع پر فوج نے آگ لگانے والے بم برسائے اور دو ہزار سے زیادہ اخوانی زندہ جل گئے تھے۔

____

دہشت گردی کی عدالت میں عمران خان کی پیشی کی ویڈیوز دیکھ کر دلی مسرت ہوئی کہ ان کی بچھڑی ہوئی بالٹی پھر سے ان کے سر پر واپس آ گئی ہے۔ یہ بالٹی 9 مئی کو کھنمب میلے، معاف کیجئے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ سے ان کی گرفتاری کے وقت ان کی وہیل چیئر سمیت بچھڑ گئی تھی۔ وہ کرسی تو واپس نہیں آئی لیکن بالٹی آ گئی۔ خدا جانے یہ بیس دن بالٹی کے فراق میں خان صاحب نے کیسے گزارے۔ 

تحریک انصاف کے ذمہ دار ذرائع سے رابطہ کر کے بچھڑی ہوئی وہیل چیئر کی واپسی کے امکانات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہیل چیئر کی اب چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ رینجرز کی جادو اثر مسیحائی کی وجہ سے خان صاحب کی ٹانگ بفضل خدا بالکل ٹھیک ہو چکی ہے اور زخم تو دور کی بات زخم کا نشان تک باقی نہیں رہا۔ البتہ ان ذرائع کے مطابق ، بالٹی کی ضرورت باقی ہے کیونکہ اس کا تعلق بعض خفیہ روحونیاتی امور سے ہے۔ 

____

تحریک انصاف سے لوگوں کی انبوہ در انبوہ رخصتی ایک طرف، اکیلے ابرار الحق کی دوری ایک طرف۔ سچ پوچھئے تو یہ موخرالذکر صدمہ سب پر بھاری ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کا سب سے بڑا اثاثہ تھے۔ بلو کے گھر، نچ پنجابن نچ ہور چوپو گنّے جیسے لہو گرما دینے والے انقلابی ترانے دینے والے امر فنکار ابرار الحق پارٹی چھوڑنے کے اگلے ہی روز لندن پائے گئے جہاں انہوں نے خان صاحب کے حریف بلکہ دشمن جاں ایک پراپرٹی ٹائیکون کے فنکشن میں شرکت کی۔ جس کا خان صاحب نے بہت ہی صدمہ منایا اور اس صدمے کی گہرائی اور گیرائی میں اور بھی اضافہ اس وقت ہو گیا جب ابرار الحق نے اس فنکشن میں میری جند میری جان جنرل عاصم منیر کا نغمہ گایا۔ اس کا صدمہ اتنا زیادہ تھا کہ یادداشت متاثر ہوئی اور خان صاحب نے گلوگیر ہو کر پارٹی کے کسی ساتھی سے پوچھا، یہ عاصم منیر کون ہے؟، کس ملک کا جنرل ہے۔ پارٹی کے ساتھی نے انہیں یاد دلایا لیکن خان صاحب کی یادداشت بحال نہ ہو سکی، وہ بار بار پوچھتے رہے کہ یہ جند جان عاصم منیر آخر کون ہے۔ 

بعدازاں خان صاحب نے پوچھا وہ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر بارش بارش کرتا ہے کی نقل کر کے مجھے زارو قطار ہنسانے والے فنکار کو بلائو۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ فنکار یہی ابرار الحق ہے جو اب میری جند میری جان جنرل عاصم منیر کے نغمے گاتا ہے، کسی کی نقل نہیں اتارتا۔ خان صاحب نے اس موقع پر فرمایا کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور ہرگز ہرگز کسی کو اپنی آرا ء نہیں دیں گے۔ انہوں نے آخر میں حکم صادر فرمایا کہ نواز شریف کے جیل والے کمرے سے ٹی وی اور اے سی فوراً اتروایا جائے۔ انہیں بتایا گیا کہ نواز شریف جیل میں نہیں ہیں، وہ تو کب کے لندن چلے گئے۔ اس پر خان صاحب نے چپ کی بالٹی اوڑھ لی۔ 

____

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے پی ٹی آئی کے ان مایوس افراد سے جو پارٹی چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں جا رہے ہیں، اپیل کی ہے کہ وہ جماعت اسلامی میں آ جائیں۔ 

عقیدے اور سیاست کے اعتبار سے جماعت اسلامی کچھ عرصہ سے پی ٹی آئی کی جڑواں جماعت ہے۔ چنانچہ سراج الحق کی اس دعوت کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ گویا یہ کہہ رہے ہیں کہ گھر کی بات گھر ہی میں رہنی چاہیے۔وہاں کی دہلیز سے قدم باہر نکالو تو اس گھر کی دہلیز کے اندر قدم رکھ دو۔ برسبیل تذکرہ جماعت اسلامی پی ٹی آئی سے چھوٹی جماعت مانی جاتی ہے لیکن شاید اب جماعت بڑی اور پی ٹی آئی چھوٹی ہو جائے۔ 

Leave a Reply