Dangue ka dusra hamla zada khtrnak

ڈینگی کا دوسرا حملہ زیادہ خطرناک ہے




ڈینگی بخار میں عمومی طور پر ہونے والا تیز بخار تین سے چار دن تک رہتا ہے لیکن ہمیں یہ خیال رکھنا چاہئے کہ آج کل کے موسم میں بخار اتارنے کیلئے صرف پیراسٹامول کا استعمال کیا جائے اس لئے کہ بروفین یا کوئی اور ادویات جسم کے اندرونی اعضاء میں بلیڈنگ کر سکتی ہیں۔ اسی طرح مرض کے دوران سادہ غذا کا استعمال کیا جانا چاہئے اور خصوصی طور پر رنگ دار خوراکیں جیسے سرخ رنگ کا تربوز کا استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بعض اوقات انسان یہ مشکل سے جان پاتا ہے کہ یہ لال رنگ کی الٹی آنے کی وجہ کیا جسم کے اندر سے خون کا بہنا ہے یا تربوز کی وجہ سے یہ الٹی ایسی ہے۔ علاج معالجے کے لئے اپنے قریبی ڈاکٹر یا ہسپتال سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔ ڈینگی کے حوالے سے بہت سارے ٹوٹکے عوام میں مشہور ہیں۔ کچھ پیر فقیر دم کیا ہوا پانی سات دن کے لئے پینے کا کہتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ مریض ٹھیک ہو جائے گا۔ یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ ڈینگی کا بخار عمومی طور پر تین سے چار دن رہتا ہے اور نوے فیصد سے پچانوے فیصد افراد میں یہ وائرس ختم ہو جاتا ہے اور کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ اس دوران اگر دم کیا ہوا یا سادہ پانی پی لیا جائے یا کسی حکیم یا ڈاکٹر سے دوا استعمال کر لی جائے تو اس کا مرض کی اتنی ہی مدت میں ٹھیک ہو جاتا ہے یہ دراصل ڈینگی بخار کی ایک روٹین ہے کہ دو سے اڑھائی فیصد افراد میں خطرناک علامات پیدا ہوتی ہیں باقی تمام لوگ ہلکا پھلکا بخار، کمر درد، آنکھ کے درد کے بعد نارمل ہو کے گھر چلے جاتے ہیں۔ اس لئے ان حکیموں یا پیر فقیروں کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ اسی طرح سے پپیتے کو اس مرض میں اکسیر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ کئی حکیموں کے بقول ڈینگی میں پپیتا کھانے سے پلیٹ لٹس کی تعداد بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ جب ڈینگی نے وبائی شکل اختیار کی تو لوگوں نے پپیتا مہنگے داموں خریدنا شروع کر دیا یہاں تک کہ ریڑھیوں کی ریڑھیاں ختم ہونا شروع ہو گئیں یہاں تک کہ کراچی سے پپیتا ٹرکوں کے حساب سے لاہور بھیجا جانے لگا لیکن سائنسی تحقیق نے یہ بات ثابت کی کہ پپیتا ایک اچھی خوراک ہے جو انسان میں پانی کی کمی کو پورا کرتا ہے لیکن پلیٹ لٹس میں اضافہ کرنے میں اس کا کوئی مؤثرکردار نہیں۔ ایسے ہی کئی اتائیوں نے صرف اپنی دکان داری چمکانے کیلئے ڈرپوں اور رنگ دار ٹیکوں کے ذریعے قوم کو لوٹنا شروع کر دیا۔ ڈینگی بخار کے دوران ویسے ہی جسم کے اندرونی اعضاء میں لیکیج کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس دوران اگر ڈرپوں کے ذریعے بہت زیادہ پانی یا نمکیات جسم میں ڈال دیئے جائیں تو لیکیج میں اضافہ ہو جاتا ہے اور پیٹ، آنتوں یہاں تک کہ پھیپھڑوں کے گرد پانی کی مقدار جمع ہو کر سانس لینے میں دقت پیدا کر سکتی ہے۔ اس لئے ڈینگی بخار کے دوران بغیر کسی سپیشلسٹ ڈاکٹر کے مشورے سے ڈرپیں لگانے سے پرہیز کرنا چاہئے ورنہ یہ خطرناک اور جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ بعض صورتوں میں جب ڈینگی کا شدید حملہ ہو تو ہسپتال میں داخلہ ضروری ہو جاتا ہے۔
ڈینگی سے بچاؤ کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر کام کرنا ضروری ہے۔ انفرادی سطح پر یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ کو مچھر کے کاٹنے سے بچائے رکھے۔ مچھر زیادہ تر گھٹنے اور ٹخنے پر کاٹتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب آپ باہر نکلیں تو جسم کے کھلے حصوں پر مچھر بھگاؤ لوشن لگا لیں تاکہ مچھر حملہ آور نہ ہو سکے۔ زیادہ تر مچھر کاٹنے کا ہمیں علم ہی نہیں ہو پاتا اور مریض یہ یاد ہی نہیں کر پاتا کہ کس وقت اسے مچھر نے کاٹا۔ اس لئے ہر وقت احتیاط بہت ضروری ہے۔ اسی طرح گھروں میں جسم پر مچھر لگاؤ لوشن لگانا چاہئے رات کو سوتے ہوئے کوائل یا سپرے کا استعمال ضروری ہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ اپنے گھروں کے اندر مچھروں کی افزائش کم کرنے کیلئے مختلف مرتبانوں، ٹائروں اور دیگر جگہوں پر جمع ہونے والے پانی کو صاف کریں۔ یہ ڈینگی سے بچاؤ کا سب سے آسان اور سستا طریقہ ہے۔ گھروں میں موجود کسی بھی جگہ پر پانی کو کھڑا نہ ہونے دیں، پودوں کے اطراف جمع پانی تلف کر دیں اور گھر کے اندر یا اطراف میں جمع پانی خشک کر لیں۔ اگر گھروں کے گرد پانی کا کوئی جوہڑ موجود ہو تو وہاں ڈینگی کھانے والی مچھلی چھوڑ دی جائے، وہ مچھر کے لاروے کو آہستہ آہستہ کھا جاتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جوہڑ میں ڈینگی ختم کرنے والے کیمیکلز ڈال دیئے جائیں۔ اسی طرح مچھر کو مارنے کے لئے گھروں کے اندر مچھر مار سپرے کرانا ضروری ہے اور خاص طور پر IRS سپرے بہت زیادہ ضروری ہے جو چھتوں، کونے کھدروں، فرش اور بستروں کے نیچے کر دیا جائے۔ جو بھی مچھر کیمیکل کی سطح پر بیٹھتا ہے تو وہ مر جاتا ہے اس وجہ سے مچھروں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے لیکن مچھر کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ افزائش کو روکنا ہے۔ اس لئے اگر ہم مچھروں کی افزائش کو روک لیں گے تو ایک مچھر سے ہزاروں مچھروں کے پیدا ہونے کا عمل رک جائے گا اور بیماری کافی حد تک کم ہو جائے گی۔
دنیا کے کئی ممالک میں ڈینگی وائرس سے بچاؤ کے لئے ویکسین بھی موجود ہے جو چاروں قسم کے ڈینگی وائرکے لئے بنائی گئی ہے۔ اس ویکسین کا سائیڈ افیکٹ بھی کم ہے۔ اگر یہ ویکسین بروقت لگوا لی جائے تو خطرناک بیماری میں 84 فیصد کمی آ جاتی ہے اور چاروں قسم کے ڈینگی سے کافی حد تک بچت ہو جاتی ہے۔ باہر کے ملکوں میں اس ویکسین کی تین خوراکیں لگائی جاتی ہیں۔ 9 سے 45 سال کے عمر کے لوگوں میں یہ ویکسین لگائی جاتی ہے یعنی 06 ماہ اور 12 ماہ۔ ایک سال سے چھوٹے بچوں میں ویکسین لگانے سے پہلے ڈینگی کا ٹیسٹ کرنا ضروری ہے جبکہ 45 سال سے کم عمر کے جوانوں میں ویکسین لگانے سے پہلے کسی قسم کا ٹیسٹ کروانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ویکسین ڈینگی کے خلاف سو فیصد نہیں بچا سکتی اس لئے یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ ویکسین لگانے کے باوجود لوگوں میں ڈینگی کا حملہ ہو جاتا ہے۔ (ختم شد)

Leave a Reply