Is trha dilon par raj nhi hota

اس طرح دلوں پر راج نہیں ہوتا




انسانی حقوق میں بنیادی طورپر ہر ایک کو زندہ رہنے یعنی زندگی اور آزادی کا حق ہے۔ پہلی بار کرۂ ارض پر انسانی حقوق کی پامالی تب ہوئی جب قابیل نے ہابیل سے اس کے زندہ رہنے کا حق چھینا‘ اس کو قتل کیا۔ دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کا یہ پہلا گناہ تھا۔ جب سے لے کر آج تک کئی قابیل پیدا ہوئے۔ انسانوں‘ انسانیت اور انسانی حقوق کا قتل کرتے رہے۔ اس کا بدترین مظاہرہ دنیا کے چند ممالک کے علاوہ آج کل پاکستان میں بھی ہورہا ہے۔ انسانی زندگی کے تقدس اور خدا کے نزدیک سب انسانوں کی برابری پر یقین کی بنیادیں اور مثالیں ابراہیمی مذاہب سے پہلے بھی انسانی حقوق کے ارتقائی عمل کی تاریخ میں نظر آتی ہیں۔ یونانی شاعروں نے کئی سو سال قبل از مسیح بالخصوص ہومر اور HESIUD نے اپنی شاعری میں یونانی دیوتائوں کی خصوصیات کے ذریعے انسانی حقوق کا اظہار کیا اور خدا کے انصاف کے جوہر کو تمام انسانوں کے مساوی حقوق کی ضمانت کے طور پر اجاگر کیا۔ ہومر کی دو تصانیف LLIAD اور ODYSSEY نے مغرب کو انسانی حقوق کے حوالے سے متاثر کیا۔ حضرت موسیٰؑ نے تیرہ سو سال قبل از مسیح میں اپنے لوگوں کو مصری فرعونوں کی غلامی سے نجات دلوائی اور انسانی حقوق کے تقدس کوقائم کیا۔ ان کے بعد آنے والے تمام پیغمبر جن پر آسمانی کتب نازل فرمائی گئیں‘ ان سب نے انسانی برابری کے حقوق اور انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کی اور انسانوں کو استحصال سے پاک معاشرے کا راستہ دکھایا۔ رسول پاکﷺ نے یہ معاشرہ قائم کر کے دکھایا جس میں سماجی تحفظ‘ خاندانی ڈھانچہ‘ غلامی سے آزادی‘ عورتوں اور نسلی‘ مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی تھی۔ جدید انسانی حقوق کی بنیاد جدید دور کے ابتدائی نشاۃ ثانیہ ہیومن ازم کے دور میں پڑی۔ یورپی محققین کے مطابق مذہبی یورپی جنگوں اور سترھویں صدی کی سلطنت انگلستان کی خانہ جنگیوں نے آزاد سوچ کے فلسفے کو جنم دیا۔ اٹھارویں صدی کے روشن خیالی کے زمانے میں یورپ فکری ثقافت کا مرکز بنا۔ امریکی اور فرانسیسی انقلابات نے مغرب میں انسانی حقوق کے مطالبے کو مضبوط کیا۔ انیسویں صدی میں جمہوریت کے ارتقا نے انسانی حقوق کو مزید اجاگر کیا اور دونوں عالمی جنگوں کے نتیجے میں یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کی تشکیل ہوئی۔ انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ 1948ء میں سامنے آیا۔ اس وقت اقوام متحدہ کے 56 ممبران میں سے آٹھ نے مساوی حقوق کے حق میں ووٹ نہیں دیا مگر انسانی حقوق کی تشریح اور دائرہ بندی کر کے دنیا بھر میں اس کو نافذ کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تعریف کے مطابق یہ وہ حقوق ہیں جو جنس‘ قومیت‘ نسل‘ زبان‘ مذہب یا عقیدے سے قطع نظر انسان کو پیدائشی‘ فکری طور پر ملتے ہیں اور یہ اس کے موروثی حقوق ہیں۔ ان حقوق میں زندہ رہنے کا حق‘ غلامی اور کسی بھی طرح کے تشدد سے آزادی کا حق‘ رائے قائم کرنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حق‘ جائز طریقے سے کمائی کرنے کا حق‘ سماجی تحفظ کیحق کے علاوہ اور بھی بہت کچھ شامل ہے۔ اس عالمی اعلامیے ک UHRC کہتے ہیں اور یہ 30 آرٹیکلز پر مشتمل ہے۔ دنیا بھر کے حکمرانوں کو انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے سے پہلے یہ چارٹر یادرکھنا چاہیے ۔ پاکستان جس نے 1948ء میں اس اعلامیے پر دستخط کئے تھے اور وہ اس اعلامیے میں موجود تمام تیس شقوں کا پابند ہے۔ یہ اعلامیہ پوری دنیا کے لوگوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کا خواہ وہ اجتماعی ہوں یا انفرادی احاطہ کرتا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کے وہ حکمران جو سرکاری خرچے پر اپنے اہل و عیال سمیت کئی کئی بار زیارات اور علاج کھڑکاتے ہیں اور ان کو عالمی چارٹر کے ساتھ رسول پاکﷺ کے چارٹر آف ہیومن رائٹس کا سامنا بھی ہے اور ان پر انسانی حقوق کے حوالے سے دوہری ذمہ داری ہے۔ وہ یہ نہیں کرسکتے جو آج کل بالخصوص عورتوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ وہ نا صرف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے مجرم ہیں بلکہ وہ پروردگار اور اس کے رسول پاکﷺ کے بھی مجرم ہیں۔ توڑ پھوڑ قابل مذمب ہے مگر اس کی آڑ میں سیاسی مخالفین پر غیرانسانی تشدد کرنا اور ان کے انسانی حقوق کوسلب کرنا نا قابل قبول عمل ہے۔ اس عمل کی ابتدا ایوب خان نے مغربی پاکستان میں گورنر امیر محمد خان اور مشرقی پاکستان میں گورنر منعم خان کے ذریعے کی تھی‘ اس کی بدترین شکل جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں قوم نے بھگتی ۔ اس قسم کے حکمرانوں کے سرپرست‘ جمہوریت اور انسانی حقوق کی حفاظت کے بہانے دنیا پر جنگیں مسلط کرنے والا توسیع پسند امریکی سامراج خود بھی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل ‘ ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں نے امریکی حکومتوں کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل میں شائع کیا ہے۔ اقوام متحدہ جو ایک طرح سے امریکہ کا ذیلی ادارہ ہے، اس کی انسانی حقوق کونسل نے بھی امریکہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے۔ امریکہ میں لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھ کر تشدد کے استعمال کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ بھی کی جاتی ہے۔ امریکہ دنیا میں آمرانہ مطلق العنان حکومتوں کی حمایت کرتا ہے‘ سرپرستی کرتا ہے اور ایسے ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ امریکہ نواز ممالک میں بیرونی امداد پر پلنے والے ہیومن رائٹس کیمشن بھی اس کے اشارہ پر احتجاج کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں۔ پاکستان کے حالات پر یہاں کا ہیومن رائٹس کمیشن خاموش ہے اور عورت مارچ والی میرا جسم میری مرضی والی خواتین خاموش ہیں۔ مغرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے شمالی کوریا‘ چین‘ اری ٹیریا‘ ایران‘ شام‘ عراق‘ سوڈان‘ افغانستان اور سعودی عرب کو نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ بھارت میں مسلمان آبادی‘ دلت اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے چونکہ چین کے خلاف بھارت کی جغرافیائی اہمیت اور فوجی اور اقتصادی تعلقات کوقربت کی وجہ سے امریکہ ہندو توا کی پرچارک مذہبی جنونی بھارتیا جنتا پارٹی کی مودی سرکار کا اس خطے میں سٹریٹجک پارٹنر ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والے مجرموں اور متاثرین کے درمیان طاقت کا عدم توازن ہے جس کی وجہ سے اکثر جرائم منظر عام پر نہیں آتے او اگر آ بھی جائیں تو مجرموں کو سزائیں نہیں ہوتیں۔ اس لیے کہ اس استحصالی معاشرے کا نظام عدل وانصاف عموماً فیصلہ متاثرین کے حق میں نہیں بلکہ مجرموں کے حق میں کرتا ہے۔ معاشرہ جاگیردارانہ ہے چنانچہ متاثرین کو مزید انتظامی کارروائیوں کا خوف رہتا ہے اور ان خلاف ورزیوں کو برداشت کرتے ہوئے ٹیلی ویژن پر آ کر ایک ہی طرح کی عبارت پڑھ کر سیاست سے کنارہ کشی کرنے کا اعلان کرنے والوں کی آج کل قطار لگی ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کے وہ محافظ جو اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر دوسروں کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں، تشدد برداشت کرتے ہیں ،جیلیں کاٹتے ہیں، بعض اوقات جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں وہ اپنے وقت کے ہیروز ہیں کیونکہ اگر ایسے لوگ دنیا میں نہ ہوں تو انسانی حقوق کی خلاف خلاف ورزیاں کر کے، دہشت پھیلا کر راج کرنے والوں کو کون بتائے گا کہ اس طرح عوام کے دلوں پر راج نہیں کیا جا سکتا۔

Leave a Reply