Turkya ky erdawan ki tarekhi fatah

ترکیہ کے اردوان کی تاریخی فتح




ویسے تو ہمارے لئے بہترین لیکن شرمناک مثال بنگلہ دیش ہے جس نے ہم سے الگ ہوکر ایک ترقی کرتی ہوئی قوم کے طور پر اپنا آپ منوایا ہے بنگلہ دیش کا قیام اس اعتبار سے بھی حیران کن ہے کہ بنگالی آبادی کے لحاظ سے غیر منقسم پاکستان میں زیادہ تھے اکثریت میں تھے یہ تاریخ میں شاید پہلی بار ہوا کہ اکثریتی گروہ نے، اقلیتی گروہ سے لڑ کر علیحدگی اختیار کی حالانکہ عام طور پر اقلیتی گروہ یا قوم اکثریت کے مظالم سے تنگ آکر اس سے علیحدگی چاہتی ہے آزادی مانگتی ہے۔ آج بنگلہ دیش ایک آزاد وطن کے طور پر، ایک باہمت اور غیرت مند قوم کے طور پر اقوام عالم سے اپنا آپ منوا رہا ہے۔ ویسے ہمارے لئے ہندوستان بھی ایک بہترین لیکن شرمناک مثال ہے ہمارے ساتھ ہی آزادی حاصل کرنے کے بعد آج وہ کہاں جا پہنچا ہے آبادی کے لحاظ سے نمبرون ہوگیا ہے تعمیر و ترقی کے اعتبار سے دنیا کے 3/4 بڑے مالک میں شمار ہوتا ہے عالمی سیاست ہو یا علاقائی سیاست وہ ہر جگہ پہلی صف میں کھڑا نظر آتا ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناتے وہ اقوام عالم میں محترم مقام کا مالک ہے ہندوستانی تعلیم اور سیاست میں ہی عالمی کھلاڑی نہیں ہیں بلکہ عالمی معاملات کو من چاہا رخ دینے میں بھی انہیں رسوخ حاصل ہو چکا ہے۔ یہ اسی رسوخ کا کمال ہے کہ انہوں نے بغیر ڈکار لئے کشمیر ہضم کر دکھایا ہے ہمارے رہنما صرف بیان بازی اور سیاست بازی کرتے ہیں جبکہ ہندوستان کشمیر کو اپنا لازمی حصہ بنا کر اسکی تعمیرو ترقی میں مصروف ہے ہم صرف یوم تکبیر منانے پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں۔
ہمارے لئے چین بھی تعمیرو ترقی کی ایک حیران کن مثال ہے 1948 سے پہلے چینی افیون خوری میں غرقاب ہو چکے ہیں مغرب نے ایک طویل منصوبہ بندی کے ذریعے چین جیسے دیو کو افیون کا اسیر بنا کر اسے سلا رکھا تھا اس کے قویٰ اور اعضاء و اعصاب مکمل طور پر شل کر رکھے تھے لیکن جب اس دیو کو ماؤزے تنگ اور چو این لائی جیسی انقلابی قیادت ملی تو پھر دیکھتے ہی دیکھتے چینی خواب خرگوش سے بیدار ہوئے، کام کرنے لگے، قوم کے طور پر اپنی بقا اور ترقی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے آج ہم دیکھ رہے ہیں چین عالمی طاقت کے طور پر اپنا آپ منوا رہا ہے اقوام مغرب کو حیران کر رہا ہے پوری دنیا کو تعمیر و ترقی کے سفر میں شامل کر رہا ہے، چین نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت دنیا کے تین بڑے براعظموں ایشیا یورپ اور افریقہ کو جوڑ دیا ہے تجارتی راہداری کے ذریعے اپنا اثر ورسوخ قائم کر دکھایا ہے چین بقائے باہمی کی پالیسی کے تحت جہاں جہاں جا رہا ہے تعمیر و ترقی کی روشن اور قابل تقلید مثالیں قائم کرتا چلا جا رہا ہے چین نے سی
پیک کے ذریعے ہمیں بھی اس عالمی سفر میں شامل کرنا چاہا۔ 64 ارب ڈالر کے تعمیراتی و ترقیاتی منصوبے دیئے ہم نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ چین کی پیش کش کو قبول کیا لیکن ہماری سیاست آڑے آئی منصوبے طے شدہ رفتار اور میعاد کے مطابق پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے ہم چین کے شراکت دار بننے کے بجائے قرض دار بنتے چلے جا رہے ہیں ہماری معیشت مکمل طور پر سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی ہے ہم سرمایہ کاری کے بجائے بھیک مانگنے پر مجبور ہو چکے ہیں مغربی عالمی اداروں نے ہمیں قرض دینے سے انکار کر رکھا ہے انہیں ہماری سیاسی ساکھ پر شک ہے۔ عمران خان نے انکے ساتھ معاہدے کر کے بھی، ان شرائط پر عمل درآمد نہ کر کے قومی ساکھ کو نقصان پہنچا یا ہے 9/10 اپریل 2022 کے بعد ایوان اقتدار سے رخصتی کے بعد سے عمران خان پاکستان کی ساکھ کے لئے تباہ کن بلکہ خودکش بمبار کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ عالمی ادارے اتحادی حکومت کے زیرانتظام ملک پر اعتماد کرنے اور اسے قرض دینے سے گریزاں ہی نہیں بلکہ اب تو انکاری ہو چکے ہیں ہماری معاشی حالت بہت ہی پتلی ہو چکی ہے۔ ہمارے تجربہ کار اور پالیسی ساز وزیر خزانہ کہہ چکے ہیں کہ دنیا حیران ہے کہ پاکستان نے ابھی تک ڈیفالٹ کیوں نہیں کیا ہے؟ بات تو یہی سچی ہے کہ ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں لیکن اعلان نہیں کر رہے ہیں ہماری معیشت کی چولیں مکمل طور پر ہل چکی ہیں تباہی یقینی ہے لیکن ہم امیدوں سہاروں کے بل پر زندہ ہیں۔
اسرائیل بھی ہمارے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک کروڑ چالیسں لاکھ کی تعداد میں یہودی پورے عالم شرق و غرب پر حکمران ہیں۔ یہودیوں کی یہ تعداد، مجموعی طور پر ہے اس میں 90 لاکھ اسرائیل میں بسنے والے یہودی، امریکہ، برطانیہ، یورپ اور دیگر ممالک میں بسنے والے یہودی سب شامل ہیں اتنی قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود وہ دنیا کے معاشی، سیاسی، معاشرتی اعصاب پر سوار ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا کو آگے لگا رکھا ہے دوسری طرف 1 ارب 40 کروڑ سے زائد مسلمان ذلیل و خوار ہیں۔
ایسے نامساعد حالات میں بے یقینی اور نا امیدی کی صورت میں اردوان کا ترکیہ ہمارے لئے امید بہار کی حیثیت رکھتا ہے جنگ عظیم اول میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اتاترک کے ترکیہ نے بچے کھچے ترکوں کو سمیٹا۔ یہاں سیکولر ازم اور فوج کے اتحاد نے اسلام کی بیخ کنی کی شعوری کاوشیں کیں دوسری طرف ترکیہ کی معاشی حالت بتدیج کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی۔ ترکیہ مرد بیمار کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ پھر منظر پر طیب اردوان ابھرے عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار اردوان نے ترکیہ کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ فوجی جرنیلوں کو انکی بیرکس تک محدود کیا۔ آئینی طریقے سے ترکیہ کی فکری و نظری بنیادوں کو صراط المستقیم پر لگایا۔ ہم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ فوج نے بغاوت کی وہ ٹینک لے کر سڑکوں پر آ گئی تھی لیکن ترک عوام نے انہیں واپسی پر مجبور کر دیا اردوان کی عوام میں پذیرائی، ہر دلعزیزی کا کمال ہے کہ اردوان گیارہویں مرتبہ عوامی تا ئید حاصل کرنے والے پہلے مسلمان حکمران ہونے کا منفرد اعزاز حاصل کر چکے ہیں جس طرح فرانس اور ڈیگال کو الگ نہیں کیا جا سکتا ہے اسی طرح ترکیہ اور اردوان ایک دوسرے کے ساتھ جڑ چکے ہیں۔
ترکیہ پاکستان کے لئے اور اردوان ہمارے سیاستدانوں کے لئے ایک روشن مثال ہیں۔ مخلص اور قابل قیادت، کسی بھی قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اردوان کا ترکیہ اسکی شاندار مثال ہے جمہوریت کی کامیابی، عوام کی کامیابی ہوتی ہے، ملک کی تعمیر ہوتی ہے ترقی ہوتی ہے۔ ترکیہ اسکا عملی نمونہ ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم ابھی تک کیوں ایک کامیاب ملک اور قوم نہیں بن سکے ہیں آیئے ترکیہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا محاسبہ کریں۔

Leave a Reply