Aek aur centry!!!!!

!!!!!ایک اور سنچری

سیاسی میدان میں زیادہ سے زیادہ وکٹیں گرانے کا ریکارڈ قائم کرنے کے خواہشمند عمران خان کے لیے آج اپنی وکٹیں بچانا مشکل ہو چکا ہے۔ ان کی وکٹیں تو ایسے گر رہی ہیں جیسے خزاں کے پتے گرتے ہیں۔ یعنی کپتان کے بلے بازوں کی دفاعی تکنیک ہی بہت خراب ہے حالانکہ بلے بازی میں اگر دفاعی تکنیک کمزور ہو تو لمبی اننگز کھیلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوتا ہے ۔ کامیاب بلے باز وہی کہلاتا ہے جو مشکل میں رنز سکور کرتا ہے لیکن کپتان کے بلے باز تو ذرا سے گہرے بادلوں میں ریٹائرڈ ہرٹ ہوئے جا رہے ہیں۔ کیا کپتان کے سارے بلے باز فلیٹ ٹریک پر کھیلنے کے عادی ہیں، کیا کپتان نے اتنے کمزور بلے بازوں کا انتخاب کیا تھا کہ ذرا سی مشکل کنڈیشنز میں ہاتھ پاو¿ں پھول جائیں اور کھیلنے سے انکار کے ساتھ ساتھ وقفے یا ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے چلے جائیں۔ یہاں تو سلیکشن ہی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ۔ کپتان کے کھلاڑی میدان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں ۔ پچ پر جم کر کھڑے ہونا تو دور کی بات کوئی ہوٹل سے سٹیڈیم بھی نہیں جانا چاہتا۔ اگر کھیلنے سے انکار کرنے والوں کو برا بھلا کہنا ہے تو سلیکشن کمیٹی پر بھی سوالیہ نشان تو آئے گا۔




عمران خان وزارت عظمیٰ سے الگ ہوئے تو اس اہم ترین منصب سے ہٹنے کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان پر مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک ایک کر کے مقدمات بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ عمران خان نے میڈیا سے بات چیت میں یہ کہنا شروع کیا کہ سنچری ہونے والی ہے یا سنچری ہو گئی ہے یہ وقت بھی گذرا اور اب یہ وقت ہے کہ انہیں چھوڑنے والوں کی سنچری ہو چکی ہے۔ مقدمات کی سنچری بارے تو شکوک و شبہات تھے کہ کہیں کم زیادہ ہو سکتے ہیں لیکن انہیں چھوڑنے والوں کے بارے کوئی شک و شبہ نہیں ہے کی ان کی سنچری ہو چکی ہے۔ عمران خان چونکہ کرکٹر ہیں وہ اپنی سیاست کو بھی کرکٹ کے میدان سے ہی جوڑتے ہوئے مثالیں بھی دیتے ہیں اور کرکٹ کے واقعات سے ہی لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا انداز گفتگو سننے والوں پر اثر کرتا ہے ۔ چونکہ لوگ کرکٹ کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور عمران خان کامیاب کرکٹر ہیں تو اگر وہ کہتے ہیں کہ تینوں وکٹیں ایک ساتھ گراﺅں گا تو لوگوں کو ان کا کرکٹ کا زمانہ یاد آتا ہے۔ اسی طرح جب وہ کہتے ہیں کہ امپائر کی انگلی کھڑی ہونے والی ہے تو ان کے پرستار سمجھتے ہیں کہ کپتان کامیابی کے قریب ہے، اسی طرح جب عمران خان کہتے ہیں کہ انہوں نے امپائر ساتھ ملائے ہوئے ہیں تو یہ الفاظ بھی سننے والوں کو متاثر کرتے ہیں کہ دھاندلی ہو رہی ہے، ووٹوں کا ہیر پھیر ہو گا، گنتی خراب کر دی جائے گی، ہارنے والوں کو جتوا دیا جائے گا اور جیتنے والوں کو ہروا دیا جائے گا۔ یوں عمران خان اپنے پرستاروں کو ہر وقت کرکٹ سے جوڑے رکھتے ہیں۔ وہ اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں پر بھی اس انداز میں فائدہ اٹھاتے ہیں کہ کامیابی ان کی ہے اور ناکام کوئی اور ہوا ہے۔

 جیسا کہ وہ ان کے خلاف ہونے والے مقدمات کی سنچری بھی ناجائز ہے اور انہیں چھوڑ کر جانے والوں کی بڑی تعداد کو تو وہ ٹکٹ دینا ہی نہیں چاہتے تھے یعنی دونوں صورتوں میں کپتان کا کوا سفید ہی ہے۔ اگر ٹکٹ نہیں دینا تھے تو اعلان کر دیتے کہ فلاں فلاں لوگوں کو ٹکٹ نہیں ملیں گے وہ اپنا بندوبست کریں یا اگر وہ اتنے نالائق تھے تو انہیں جماعت سے ہی نکال دیتے۔ اگر چھوڑ گئے ہیں تو ان کی کچھ عزت ہی رکھ لیتے۔ اپنے اوپر ہونے والے مقدمات گنواتے رہتے تھے لیکن جو مقدمات کارکنوں پر ہو رہے ہیں ان کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ مقدمات کی سنچری بھی کسی اور کا کریڈٹ ہے اور چھوڑ کر جانے والوں کا ذمہ دار بھی کوئی اور ہے کیونکہ کپتان تو آج بھی امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امپائر کو اپنے ساتھ کون ملاتا ہے، کیا کپتان کو امپائر کے غیر جانبدار ہونے کا دکھ ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ کپتان کو اصل دکھ یہ ہے کہ کوئی امپائر ان کا ساتھ کیوں نہیں دے رہا۔ کپتان چاہتے ہیں کہ امپائر کسی ایک کی حمایت کرے لیکن وہ ایک صرف کپتان ہو ان کے علاوہ کسی کی حمایت “فاﺅل پلے” ہے۔ کپتان کامیابی کا کریڈٹ کسی اور کو دینا نہیں چاہتے اور ناکامی کی ذمہ داری لینا نہیں چاہتے۔ وہ صفر پر بھی آو¿ٹ ہوں تو اسے ایسا ثابت کریں گے کہ ایسے کوئی اور آو¿ٹ نہیں ہو سکتا۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کپتان کی مسکراہٹ کہاں کھو گئی ہے تو یہ مسئلہ بھی حل کر دیتے ہیں۔ جب بھی کبھی کپتان کو طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہو گی وہ آپکو مسکراتے ہوئے نظر آئیں گے اور اگر طاقتور حلقوں کی حمایت سے محروم ہوں گے تو ہر وقت اضطراب اور بے چینی کی کیفیت میں رہیں گے۔ یقین نہیں آتا تو دیکھ لیجیے ان دنوں وہ جس انداز میں گفتگو کرتے ہیں خاصے بے چین ہیں اور یہی کپتان جب گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ پیش ہوئے تھے تو چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ تھی۔ ہنس ہنس کر جواب دے رہے تھے، چلتے ہوئے مسکرا رہے تھے اس وقت نہ انہیں مقدمات کی سنچری کا دکھ تھا نہ کوئی پریشانی تھی کیونکہ اگر امپائر سے مدد کی توقع ہو تو کامیابی آسان ہو ہی جاتی ہے۔

کاش کہ عمران خان کو گرفتار کارکنوں کی سنچری کا بھی اتنا ہی دکھ ہوتا جتنا اپنے مقدمات کا تھا، کاش وہ اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت نفرت کے بجائے محبت، عدم برداشت کے بجائے برداشت، الزامات کے بجائے احترام کی بنیادوں پر کرتے تو کسی بھی قسم کے حالات میں ان کے کارکن اپنے ہی ملک کو آگ نہ لگاتے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کہتی ہے کہ فوجی تنصیبات اور ریاستی اداروں پر دھاوا بولنے والے تحریک انصاف کے لوگ نہیں بلکہ کوئی اور تھے تو دوسری طرف عمران خان کہتے ہیں کہ جس طرح فوج نے مجھے کمانڈو ایکشن کر کے گرفتار کیا اس پر ردِعمل اگر فوجی نشان والی عمارتوں کے سامنے نہ آتا تو اور کہاں آتا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بیک وقت ایک عمل کی مذمت اور دفاع بھی کر رہے ہیں۔ عمران خان غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے مسلسل غلطیاں کرتے جا رہے ہیں۔ وہ آج بھی دفاعی اداروں کو اپنا سیاسی حریف سمجھے ہوئے ہیں جب کہ اس معاملے میں ان کا مقابلہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے ہے ۔ ان کی اننگز ختم ہوئی ہے لیکن وہ یہ ماننے کو تیار نہیں بلکہ زبردستی مزید بیٹنگ کی ضد لگائے ہوئے ہیں حالانکہ اب انہیں باﺅلنگ کرنی ہے۔ سیاسی مخالفین کی بیٹنگ کا وقت ہے لیکن عمران خان باﺅلنگ نہ کرنے پر بضد ہیں۔ وہ مزید وکٹیں صرف باﺅلنگ سے ہی حاصل کر سکتے ہیں اگر وہ اسی ضد پر اڑے رہے تو ایسا نہ ہو کہ کھلاڑی ہی کم پڑ جائیں۔

موجودہ سیاسی حالات میں حکومت کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے اور انتقام کا نشانہ بنانے کے بجائے انتشار کم کرنے اور تلخیوں کو ختم کرنے والے اقدامات اٹھائے ۔ سیاسی کارکنوں کو غیر ضروری طور پر تنگ کرنا بہتر حکمت عملی نہیں ہے ۔ قانون توڑنے والوں کو معاف نہ کریں لیکن سیاسی افراتفری میں لوگوں کو نشانہ بھی نہ بنایا جائے ۔ پاکستان کو استحکام کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو امن کی ضرورت ہے ۔ اس ملک کو کروڑوں انسانوں کو ذہنی سکون اور بہتر زندگی کی ضرورت ہے۔ چند سو لوگوں نے قوم کا سکون تباہ کر رکھا ہے۔ اس مشکل سے نکالنے کے لیے کام کریں۔ 

آخر میں قتیل شفائی کا کلام

وہ شخص کہ میں جس سے محبت نہیں کرتا

ہنستا ہے مجھے دیکھ کے، نفرت نہیں کرتا

گھر والوں کو غفلت پہ سبھی کوس رہے ہیں

چوروں کو مگر کوئی ملامت نہیں کرتا

دیتے ہیں اجالے میرے سجدوں کی گواہی

میں چھپ کے اندھیروں میں عبادت نہیں کرتا

بھولا نہیں میں آج بھی آداب جوانی

میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی

جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا

Leave a Reply