Fasad ki jar

فساد کی جڑ




خان صاحب کے وزیراعظم بننے کے اڑھائی ماہ بعد جب پہلا کالم اْن کی کچھ پالیسیوں کے خلاف میں نے لکھا، میں یہ پہلے بھی بتا چْکا ہوں، سینئر تجزیہ نگار، سہیل وڑائچ نے مجھ سے کہا”بٹ صاحب آپ کا خان سے چوبیس برس پْرانا ایک ذاتی تعلق ہے، آپ نے اْن کے”تبدیلی“ کے خواب کی تعبیر کے لئے بڑی جدوجہد کی ہے، ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں اْستاد ہونے کے ناطے اس جدوجہد کا خمیازہ بھی بھگتا ہے، خان صاحب کے مخالف حکمرانوں کی انتقامی کارروائیاں بھی سہی ہیں، کم از کم آپ کو خان صاحب سے اتنی جلدی مایوس نہیں ہونا چاہئے، آپ کو ایک سال دیکھنا چاہئے، اْس کے بعد بھی وہ اگر کسی شعبے میں کوئی بہتری نہ لاسکے، پھر آپ کے جو جی میں آئے لکھنا“۔۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی سہیل وڑائچ کی یہ نصیحت پلے باندھ لی، ایک سال تک کوئی کالم میں نے اْن کے بارے میں نہیں لکھا، اْس کے بعد خان صاحب کی ”تبدیلی“ جب تباہی بننے لگی، میں نے سوچا شاید سہیل وڑائچ اب مجھے آزاد کر دیں، اْن کی طرف سے جب کوئی حکم نہیں ملا تو خان صاحب کی ناقص حکمرانی پر جہاں سے بات میں نے روکی تھی وہیں سے دوبارہ شروع کر دی، اْن کے اقتدار کے صرف اڑھائی ماہ بعد اْن کی کچھ ناقص پالیسیوں اور منافقتوں پر لکھنے کی اشد ضرورت مجھے اس لئے محسوس ہوئی تھی، میں اْس وقت جب اْن سے ملا، ایک گھنٹے کی ون ٹْو ون ملاقات میں کئی لمحات ایسے آئے جب اْن کی باتوں سے مجھے محسوس ہوا وزیراعظم بننے کے بعد یہ شخص بالکل بدل چْکا ہے، وزیراعظم بننے کے فوراً بعد اپنی پہلی تقریر میں جو”عظیم شخص“ ہمیں نظر آیا تھا وہ مجھے کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا، مجھے لگا میں وزیراعظم کے سامنے نہیں کسی”نْورے کشمیری“ کسی”شاہیے پہلوان“ کسی”ماجھے سکھ“ کسی”کالْو شاہ پْوریے“ کے سامنے بیٹھا ہوں جو اپنے ہر مخالف کو قتل کروا دینا چاہتا ہے، مْلک کی ترقی اس کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں تھی، اس کا سارا فوکس انتقام پر تھا، بس ایک ہی”وژن“ تھا اور وہ”ٹیلی وژن“ تھا، مجھے یقین ہوگیا تھا یہ شخص کسی شعبے میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے گا، بلکہ سسٹم میں تھوڑی بہت جو اچھائیاں ہیں وہ بھی تباہ کر دے گا، مْنتقم مزاج شخص چاہے کوئی بھی ہو اور وہ کتنا ہی باصلاحیت کیوں نہ ہو اپنا سارا وقت انتقامی کارروائیوں میں ضائع کر دیتا ہے، اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں یہی کچھ اْس نے کیا۔۔ کچھ لوگ مجھ پر علیم خان کی محبت کا ”الزام“ لگاتے ہیں، وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں میں نے جب سے سماء نیوز جائن کیا تب سے خان صاحب کو میں باقاعدہ ایک مشن کے تحت تنقید کا نشانہ بنا رہا ہوں، میرا ریکارڈ گواہ ہے یہ کام تو میں نے خان صاحب کے اقتدار میں آنے کے اڑھائی ماہ بعد ہی شروع کر دیا تھا، تب علیم خان مجھے روکتے تھے، میں اْن سے کہتا تھا”اس بے حیا، بے مروت، بے دید اور بدلحاظ شخص پر اپنا مال اور وقت ضائع نہ کریں، مال کی تو علیم خان نے کبھی پروا نہیں کی مجھے اْن کے قیمتی وقت کی زیادہ فکر تھی جو وہ مسلسل ضائع کر رہے تھے، علیم خان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے وہ کانوں کے کچے نہیں جبکہ خان صاحب کی سب سے بڑی خرابی ہی یہی ہے وہ کانوں کے کچے ہیں، میرے علاوہ بھی علیم خان کو بڑے لوگوں نے سمجھایا مگر کانوں کے کچے نہ ہونے کی اپنی عادت نے عمران خان کے ساتھ اْنہیں مسلسل جوڑے رکھا، عمران خان کی منافقت کا ہر وار وہ ہنس کر سہتے رہے، برداشت کی مگر کوئی حد ہوتی ہے، خان صاحب ساری حدیں جب پار کر گئے علیم خان کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ باقی نہ بچا اپنی راہیں وہ جْدا کر لیں، عمران خان کے ساتھ اپنا تعلق نبھانے کی آخری حد تک وہ گئے اور عمران خان اْن سے اپنا تعلق بگاڑنے کی آخری حد تک گئے، اقتدار سے پہلے والا علیم خان اْنہیں بڑا عزیز تھا کیونکہ تب وہ اْن پر اور پارٹی پر انھے وا مال خرچ کرتا تھا، اقتدار کے بعد اْنہیں چونکہ اندرون و بیرون مْلک سے بے شمار مزید ”اے ٹی ایم مشینیں“ مل گئیں پھر علیم خان کی اْنہیں ضرورت ہی نہیں رہی تھی، اقتدار میں آنے کے بعد بْزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا کر ایک”اے ٹی ایم مشین“ اْنہوں نے اپنی بیگم و گوگی بیگم کے لئے بھی وقف کر دی تھی۔۔ خان صاحب کی فطرت ہے اپنے مقاصد کے لئے لوگوں کو استعمال کرتے جاتے ہیں پھینکتے جاتے ہیں، علیم خان اور جہانگیر ترین کے ساتھ تو اْن کے صرف سیاسی و مالی رشتے تھے اس معاملے میں تو اپنے ”خونی رشتوں“ کو بھی اْنہوں نے نہیں بخشا، ماجد خان سے لے کر حفیظ اللہ خان نیازی تک ایک انتہائی المناک داستان اْن کی اس فطرت کا منہ بولتا ثبوت ہے، یہی کچھ اب اْنہوں نے اپنے جان نثار راہنماؤں اور کارکنوں سے بھی کیا، فوج اور جرنیلوں کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کے لئے اْن کی برین واشنگ کی، اْنہیں استعمال کیا، اب وہ سب بے چارے قسمت کے مارے مختلف جیلوں و عقوبت خانوں میں بند ہیں اور خود خان صاحب عدالتوں کی”سہولت کاریوں“ سے زمان پارک میں بیٹھے اصیل کْکڑوں، شکاری گوشت اور بادام کھا کھا کر پلے ہوئے بکروں کے گوشت سے لْطف اندوز ہوتے ہیں، اور اپنے پسندیدہ صحافیوں و لوگوں سے ملتے ہیں، دیگر مصروفیات میں وہ نوٹ بھی شاید گنتے ہوں گے جو ٹکٹ فروشی سے کمائے، وہ اگر واقعی لیڈر ہوتے عدالتوں سے کہتے ”جب تک حکومت یا عدالتیں میرے ایک ایک کارکن ایک ایک راہنما کو رہا نہیں کرتیں مجھے بھی ضمانت یا رہائی نہیں چاہئے، مگر ظاہر ہے وہ ایسا اس لئے نہیں کر سکتے تھے جیل میں اْنہیں وہ سہولتیں و کھانے پینے میسر نہیں ہونے تھے جو زمان پارک یا بنی گالہ میں ہوتے ہیں۔۔ جہاں تک حکمرانوں اور اصلی حکمرانوں کا تعلق ہے اْن کی بھی سمجھ نہیں آتی، فساد کی جو اصل جڑ ہے کچھ بیرونی قوتوں کے ناراض ہونے کے خدشے سے اْسے گرفتار کرتے ہوئے تو اْن کی جان جاتی ہے اور اپنا سارا نزلہ وہ اْن کمزور راہنماؤں اور کارکنوں پر گرا رہے ہیں جو اْس کے شر کا شکار ہوئے، جو ظلم و ستم عام کارکنوں اور راہنماؤں پر ڈھائے جا رہے ہیں اْن کا اصل حقدار زمان پارک میں بیٹھا وہ بدبخت ہے جو اپنے لوگوں کو کتنے ہی عرصے سے طریقے طریقے سے اْکسا رہا تھا کہ وہ اپنی فوج کے ساتھ وہ بدسلوکی کریں جس کا تصور کوئی دْشمن مْلک بھی نہیں کر سکتا، جھوٹ یہ شخص ڈٹ کر بولتا ہے پھر اس پر قائم بھی نہیں رہتا، کاش میرے محترم بھائی آفتاب اقبال کسی روز اپنے عظیم والد محترم ظفر اقبال کا یہ شعر اْسے سْنائیں
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اْس پر ظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے
جیسا اْس کا اپنا کردار تھا ویسا ہی کمزور کردار اْس کے بہت سے پارٹی راہنماؤں کا بھی نکلا، اْس کے اقتدار میں بڑے بڑے عہدے بڑی بڑی وزارتیں انجوائے کرنے والے لوگ چار چھتر بھی برداشت نہ کر سکے اور اْس کا ساتھ چھوڑ گئے، کچھ مگر ابھی بھی ڈٹ کر کھڑے ہیں، وہ یقینا اپنی نسل، خون اور خاندانی تربیت سے مجبور ہوں گے ورنہ اْس شخص کے ساتھ کبھی ڈٹ کر کھڑے نہ ہوتے جو خود اب ”لیٹ“ گیا ہے۔۔
ہم ترس گئے کتنے ہی دنوں سے کسی”ڈرٹی ہیری“ کا اب اْس نے زکر نہیں کیا ، ابے ڈر گیا ہے کیا؟

Leave a Reply