Jaisa samaj wesi police?

جیسا سماج ویسی پولیس؟




معاشرے سر سے پاؤں تک گل سڑ جائیں تو وہاں آپ کسی ایک ادارئے، شعبے یا فرد کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے، یہاں تو پورا معاشرہ گل سڑ ہی نہیں چکا بلکہ بد بو دار ہو چکا جس کی سڑانڈ سے ہر طرف تعفن پھیلتا محسوس ہو رہا ہے۔ یہاں ہر آدمی اس وقت تک اپنی ذات میں فرعون ہے جب تک اس سے بھی کوئی طاقت ور اس کی گردن نہیں توڑتا،یہ ہمارے معاشرے کی مجموعی حالت ہے جسے اگر بیان کرنا چاہیں تو اتنی خوفناک کہانیاں منظر عام پر آسکتی ہیں کہ انسانیت شرما جائے جس معاشرے میں چھ ماہ کی بچی سے لیکر قبر میں تازہ دفنائے مردے کو بھی نہ بخشا جائے اس معاشرے کو انسانی معاشرہ کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔ ایسے معاشرے کی مجموعی ذہنی حالت کا علاج ضروری ہے۔آج جس دور میں ہم زندہ ہیں یہ معلومات کے چھپانے کا نہیں بلکہ معلومات کو پھیلانے کا دور ہے ویسے بھی اب آپ جو مرضی کر لیں جس طرح کی مرضی پابندیاں لگا لیں معلومات کو چھپانے کی ہر کوشش ناکام ہو گی اس لئے پابندیاں لگانے کے بجائے موجودہ دور کی جدید سائنسی سہولیات سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کریں ورنہ آپ بہت پیچھے رہ جائیں گے۔
انسانی جان کی حرمت تکریم،تعظیم اس کے بنیادی انسانی حقوق اور اس کے شرف کا احترام جیسے الفاظ کم سے کم ہمارے معاشرے میں بہت کم نظر آتے ہیں۔یہاں ہر سرکاری ادارہ اور اہلکار عوام کی ناک رگڑنا اس کی عزت نفس مجروح کرنا اس کے جائز کاموں میں روڑے اٹکانا جیسے قبیح فعل فرض سمجھ کر ادا کرتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب عوام کی کثیر تعداد دوسروں کے راستے بند کرنا ان کے لئے مشکلات پیدا کرنا اور ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھ کر ادا کرتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ایک ایسا ”گنجل“ بن چکا ہے جس کا کوئی سرا کسی کے ہاتھ نہیں آرہا ہے،اس لئے اصلاح احوال کی تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے پر ہمیں بحیثیت مجموعی غور کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ہماری سیاسی و مذہبی اشرافیہ نے اس ”گنجل“ کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا شروع کر دیا اور خود تو موجیں کر رہی ہے، لیکن عوام دن بدن انارکی کی طرف بڑھ رہے ہیں، تحمل،برداشت،رواداری، صلہ رحمی جیسے رویوں کا معاشرے سے
غائب ہو جانا اس کی ایک بڑی نشانی ہے۔
کہتے ہیں جیسا سماج ہو گا اسے پولیس بھی ویسی ہی ملے گی کیونکہ وہ بھی اسی سماج میں سے نکل کر آتی ہے، پولیس کے پاس کیونکہ بے پناہ اختیارات ہوتے ہیں اگر وہ ان اختیارات کا استعمال مثبت،معاشرے کی اصلاح اور جرائم کی روک تھام کے لئے کرے تو وہ شہریوں کے نزدیک ہیرو کا درجہ پاسکتی ہے، جیسے مہذب ممالک کی پولیس کو شہری اپنا محافظ دوست اور خیر خواہ سمجھتے ہیں ایسے ہی وہ یہ درجہ یہاں بھی پاسکتی ہے لیکن یہاں وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اس حد تک آگے جا چکی ہے کہ عوام پولیس سے دور ہو چکے ہیں،بلکہ پولیس خوف و دہشت کی ایک ایسی علامت بن کر خود شہریوں سے دوور ہوچکی ہے جسے عملاً اس نے ثابت بھی کیا ہے اور جسے درست کرنے کی کوششیں اب تک ناکام ہو چکی ہیں۔
پاکستان میں ہر تھوڑے عرصے بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ یا سانحہ پیش آجاتا ہے کہ اس کی وجہ سے ملک میں قانون،پولیس اور انصاف کی فراہمی کے نظام کے بارے میں بحث چھڑ جاتی ہے۔ اگر چہ ایسا قیام پاکستان سے ہی ہوتا چلا آرہا ہے، لیکن اس کا حاصل کچھ نہیں ہوتا۔،لیکن تاحال اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم،منصوبہ بندی یا پالیسی نہیں بنی۔پنجاب میں پے در پے پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں،تشدد، توہین اور تذلیل کے واقعات نے ایک بار پھر اس بحث کو زبان زد عام کر دیا ہے یہ ادارہ کیسے درست ہو سکتا ہے اور عوام کو بھی انصاف مل سکتا ہے؟ یہ بات بھی شدّومد سے کہی جارہی ہے کہ یہاں خواص اور عوام کے لیے قانون اور انصاف کے علیحدہ علیحدہ معیارات ہیں۔دوسری جانب عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لیے حکومت کے دعوے اور سرکاری منصوبے عملی جامہ پہنے نظر نہیں آتے۔ لیکن آج بھی بہت سے افراد یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں انصاف کب اور کیسے ملے گا۔اس بارے میں آئے روزاخبارات میں کسی غریب کمزور بے بس اور لاچارکی بپتا خبر کی صورت میں شائع یا چینلز پر نشر ہوکر ہمارا منہ چڑاتی رہتی ہے۔
میرا ذاتی طور پر یہ ماننا ہے کہ ’تھانہ“ انصاف فراہم کرنے کی بنیادی اینٹ ہے،صرف اس ”اینٹ“ کے درست ہو جانے سے انصاف کی پوری عمارت سیدھی ہو کر ملک کو امن کا گہوارہ اورکسی حد تک جرائم سے پاک کیا جاسکتا ہے۔اس کے لئے چند بنیادی سوالوں کو اٹھانے اور ان کا حل پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پاکستان کا آئین تمام شہریوں کے قانونی طور پر مساوی ہونے کی یقین دہانی کراتا ہے
آرٹیکل 25: شہریوں سے مساوات
1 – تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حق دار ہیں۔
2- جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔
3 – اس آرٹیکل میں مذکور کوئی امر عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے لیے مملکت کی طرف سے کوئی خاص اہتمام کرنے میں مانع نہ ہو گا۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آئین کی پاسداری کا حلف اٹھانے والے خود آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہریوں کے حقوق سلب کرتے نظر آتے ہیں۔ صوبہ سندھ کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس،شعیب سڈل نے ایک تقریب سے خطاب کیا تھا۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ پولیس کاناقص نظام انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ سندھ میں پولیس کا نظام ناقص ہے۔ صوبے میں انصاف تک رسائی کا بحران اس حد تک سنگین ہوچکا ہے کہ غربت کی سطح سے نیچے رہنے والوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ پولیس میں ایف آئی آر کا نظام خراب ہے۔ ڈنڈا مار پولیس کا دور نہیں رہا۔ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔شعیب سڈل کا کہنا تھا کہ ملزم کا 14 روز کا ریمانڈ انگریزوں کا قانون ہے۔ تفتیشی رپورٹ میں ملزمان کے دست خط نہیں ہوتے صرف ایف آئی آر میں دستخط لیے جاتے ہیں۔ ثبوت کی عدم موجودگی میں ملزمان کو دورانِ تفتیش تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تھانے میں ایس ایچ او تین برس کا دورانیہ مکمل نہیں کرتا،بلکہ تین ماہ میں اس کا تبادلہ کردیا جا تاہے۔ان حالات میں لوگ سوال کرتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی کے باوجوداب بھی پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں مقدمات کیوں زیر التوا ہیں، کیا کبھی یہ مقدمات ختم بھی ہو سکیں گے،ہماری عدالتیں اتنی آسانی سے مقدمات کیسے التوا میں ڈال دیتی ہیں؟اس کے ذمے دارپولیس والے ہیں، وکیل ہیں، عدالتیں یا پھر استغاثہ؟ صرف الزام لگنے کی صورت میں لوگوں کو برس ہا برس جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، اس کا ذمے دار کون ہے؟ جیلوں میں وقت گزارچکے سیاست دان جب اقتدار میں آتے ہیں تو یہ مسائل حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ یہ سوال عوام پر چھوڑتے ہیں۔

Leave a Reply