” Ustad tari “

’’ اُ ستاد طاری ‘‘




میں تھوڑی ہی دیر پہلے دفتر سے گھر پہنچا تھا۔دروازے پر بیل ہوئی تو میں نے اندر سے ہی پوچھا ،کون ؟ کوئی آواز نہ آئی تو خود جا کر دروازہ کھولا۔باہر تیس بتیس سال کا سانولا سا جوان کھڑا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا ’’ سر جی میں طارق ‘‘ ! میں کچھ نہ سمجھ سکا تو بولا ’’ سر جی میں ’طاری‘ جس کے لیے شاہ صاحب نے آپ کو نوکری کے لئے کہا تھا ‘‘۔ مجھے یاد آیا کہ چند دن پہلے ہمارے بزرگ شاہ صاحب نے مجھے کہا تھا کہ یار ہمارے محلے میں ایک جوان بڑا تابعدار اور خدمت کرنے والا ہے، اسے تو کہیں سرکاری دفتر میں چھوٹی موٹی ملازمت دلا دیں۔ ساری عمر دعائیں دیتا رہے گا۔ میں چونکہ اکیلا رہتا تھا اس لئے ’ طاری‘ کو ساتھ اندر لے آیا اور اسے اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا،جس کی کل کائنات چار کر سیا ں اور ایک میز تھی۔ میں نے کہا ’’ طاری صاحب ‘‘ ، آپ کس قسم کی نوکری چاہتے ہو اور آپ کی تعلیم کیا ہے ۔ ’ طاری ‘ بولا ! سر جی نوکری تو میں صرف سرکاری چاہتا ہوں اور تعلیم میری پرائمری ہے کیونکہ پرائمری سکول کے بعد کبھی کسی بڑ ے سکول نہیں گیا۔ پھر خود ہی کہنے لگا کہ سر جی ہم ’ امیر زادے‘ ہوتے ہیں اور ہماری تعلیم اپنی ہوتی ہے ۔ سرکاری نوکری بھی اس لئے چاہتا ہوں کہ میں نے ہوائی روزی کا بڑا عروج دیکھا ہے۔ لیکن اس کا کوئی بھروسہ نہیں۔ سر جی میں خاندانی ہوں۔ میرے والد صاحب کا بڑا نام تھا۔ وہ keyboard بجانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ میں ایک دفعہ انڈیا گیا تھا تو وہاں کے بہت بڑے موسیقار ’ نو شاد ‘ کو جب معلوم پڑا کہ میں ماسٹر ساجد کا بیٹا ہوں تو انہوں نے مجھے سینے سے لگا لیا اور کہنے لگے کہ ماسٹر ساجد جیسے فنکار پوری صدی میں ایک دو ہی پیدا ہوتے ہیں۔ وہ خود ہی بولے چلاجا رہا تھا،س ’’ سر جی ‘‘ ’ گٹار ‘ بجانے میں میرا بھی چھوٹا بڑا مقام ہے ! اس شہر میں اس وقت جتنے لڑکے گٹار بجا رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر اس خادم کے شاگرد ہیں، لیکن اب اس ملک میں فن کو نظر ہی لگ گئی ہے۔ سر جی کیا زمانے تھے، سارے فلم سٹوڈیوز دن رات کھچا کھچ بھرے رہتے تھے۔ رات دن ریکارڈنگ ہوتی تھیں۔ میڈم نور جہاں، مہدی حسن صاحب جیسے گلوگار تھے اور نثار بزمی، ماسٹر عبداللہ اور با با جی اے چشتی جیسے موسیقار۔ سر جی ، ہمارے پاس ٹائم ہی نہیںہوتا تھا۔ کبھی اس سٹوڈیو اور کبھی اُس سٹوڈیو ! اور اب وہ زمانے آگئے ہیں کہ تمام سٹو ڈیو ویران پڑے ہیں،ہو کا عالم ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بھوت پھر گیا ہو ۔ ’ شا ہ نور‘ سٹو ڈیو میں تو محکمہ کسٹم کے لوگوں نے’ وئیر ہائوس ‘ بنا لیا ہے۔ اب تو حالات یہ ہیں کہ ساری رات کسی ’ فنکشن ‘ میں گٹار بجائیں تو واپسی پر ’ کنوینس‘ کا خرچہ دے کر رخصت کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں انسان خود کیا کھائے اور بچوں کو کیا کھلائے! میں نے محسوس کیا کہ ایک تو طاری صاحب کا تکیہ کلام ’’ سر جی‘‘ ہے اور دوسرا ہیں وہ پکے پکے فنکار۔ جونہی اس نے توقف کیا تو میں بولا ’’ طاری صاحب ‘‘ سرکاری نوکری ہر وقت مہیا نہیں ہوتی کہ ادھر تم آئے اور ادھر نوکری مل گئی۔ ہاں! میں نظر رکھوں گا ،جونہی کوئی نوکری ملی ،کسی کو کہہ سن کر آپ کی سرکاری نوکری لگوا دوںگا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رہے کہ سرکاری نوکری کی تنخواہ کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔ کہنے لگا سر جی ہر مہینے یہ امید تو ہوگی کہ پہلی کو لگی بندھی تنخواہ مل جائے گی ! پھر اس نے اپنی کہانی کو چھوڑا اور مجھ پر توجہ دینی شروع کی ۔ کہنے لگا ’’ سر آپ اس گھر میںاکیلے رہتے ہیں ؟ ‘‘ میں نے کہا ’’ ہاں اکیلا رہتا ہوں‘‘ کہنے لگا ’’ تو پھر سر جی کھانے پینے کا کیا کرتے ہیں‘‘ میں نے کہا کہ سامنے بڑی گلی کی نکڑ پر جو مرزا صاحب کا ریسٹورنٹ ہے اس کے ساتھ مہینے کا حساب ہے ، وہاں سے کھاتے ہیں۔کہنے لگا ’’ سر جی میں کھانا بھی بہت اچھا بنا لیتا ہوں۔ کسی دن آپ کو پکا کر کھلائونگا تو پھر آپ ہی فیصلہ دینا ‘ ‘ پھر خود سے ہی بولا’’ سر جی اتوار کو آپکی چھٹی ہوگی۔ میں اتوار کو گیارہ ساڑھے گیارہ بجے آجائوں گا اور آپ کا لنچ تیار کرونگا‘‘۔ میں نے ’ ہاں ‘ کہی نہ ’ ناں ‘ ۔ لیکن دو دن بعد یعنی اتوار کو ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے طاری صاحب حاضر ہوگئے۔ کہنے لگا ’’ سر جی نئے نئے کریلے آئے ہیں ،میں آج کریلے گوشت بنائوں گا۔ آپ مجھے پیسے دیں تاکہ میں سامنے مارکیٹ سے ضروری سودا لے آئوں‘‘ میں نے اسے رقم پکڑائی تو کہنے لگا ’’ سر جی ‘‘ میں مٹن لائوں گا کیونکہ کریلے چکن میں تو بنتے ہی نہیں۔ واپسی پر وہ ایک کاغذ پر سارا حساب لکھوا کر لایا اور بقایا پیسے مجھے دے دیئے۔ ٹھیک دو بجے اس نے میز پر لنچ لگا دیا۔ کہنے لگا’’ روٹی‘‘ میں تندور سے لے آیا ہوں ، اب آپ تشریف لائیں اور لنچ کریں ۔ خیر میں نے گو مگو کے عالم میں کھانا شروع کیا۔ کھانا کیا تھا ! میں تو سارے کھا نے بھول گیا۔ اتنا لذیذ کھانا! اب میں طاری کے ساتھ کچھ فرینڈلی سا ہونے لگا۔ ’’ طاری ، تم اتنا اچھا کھانا بناتے ہو! میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا‘‘ طاری کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ کہنے لگا ’’ سرجی ہم باریک لوگ ہیں ہر کام باریکی سے کرتے ہیں۔ آپ جب کہیں گے میں حاضر ہو جایا کرونگا اور آپ کو مزے مزے کے کھانے کھلاوں گا۔ بس آپ میری سرکاری نوکری لگوادیں۔ اب میں نے بھی اس کی سرکاری نوکری کے لئے سنجیدگی سے تلاش شروع کر دی۔ فوری طور پر باقاعدہ سرکاری نوکری تو نہ مل سکی، البتہ ایک دوست نے کہا کہ فی الحال میں اسے ڈیلی ویجز پر رکھ لیتا ہوں ،جونہی باقاعدہ نوکری نکلی تو اس کی تقرری کر دونگا ۔ اتنے میں اس کا کچھ تجربہ بھی ہو جائے گا۔ طار ی کو جب میں نے اس نوکری کا بتایا تو وہ اتنا خوش نہ ہوا، کہنے لگا ’’ سر جی یہ تو وہی پھر کچی نوکری ‘‘۔ میں نے اُسے سمجھایا کہ ایسے ہی کام شروع کرتے ہیں، پھر پکی نوکری بھی ہو جائیگی۔ خیر میرے سمجھانے پر وہ دوسرے دن نوکری پر پہنچ گیا۔باقی آئندہ! ٭٭٭٭٭

Leave a Reply