Aam muafi honi chahye

عام معافی ہونی چاہیے




رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عالم گیر ہے، آپ ؐ پوری دْنیا کے لیے چراغِ راہ بن کر تشریف لائے تھے۔آپ ؐ کی زندگی ایک مسلسل مفاہمتی عمل کا نمونہ ہے۔ اللہ کے نبیؐ اور صحابہ کرامؓ کو جب کفار نے صرف ایمان باللہ اورایمان بالرسول کی وجہ سے اپنے محبوب وطن مکہ مکرمہ میں ستانا شروع کیا اور ناقابلِ برداشت اذیتیں پہنچائیں، جان کے درپے ہوگئے لیکن فتح مکہ کے وقت آپ ؐ نے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ صحابہ کرامؓ نے بار بار اصرارکیا کہ ان دشمنان اسلام کو قتل کر دیا جائے جنہوں نے آپؐ کو ایذا پہنچائی مگر آ پ ؐ خاموش رہے تیسری بار دریافت کرنے پر آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ اس وقت کیلئے تھا ،میں رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا گیاہوں لہذا ان سب کو عام معافی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی تیئس سالہ زندگی تمام پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔آپ ؐ نے جنگ وجدل کی بجائے مفاہمتی عمل سے لوگوں کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش فرمائی۔حضوراکرم ؐ نے تکریم انسان کی داغ بیل ڈالی۔ انسان تو انسان آپؐ نے جانوروں اور شجر و حجر کی بربادی کو ردّ کردیا۔ آج کل کے سیاسی حالات کی وجہ سے نہ صرف عوام اور معاشرہ بے بسی اور بے کسی کی حالت میں ہے بلکہ وطن عزیز بھی سخت ترین امتحان اور آزمائش سے گزر رہا ہے۔ ہماری سیاست سے رواداری اور برداشت کا عنصر ناپید ہو چکا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ہر غلط حربہ اپنا یا جا رہا ہے۔ یہ سب جانتے ہوئے کہ اسلام میں ایسے رویوں کی سخت ممانعت ہے اور رسول اکرمﷺ کی سیرت طیبہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے ، ہم جان بوجھ کر اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس حکومت تبدیل ہونے سے لے کر امسال 9 مئی کے واقعہ تک سیاسی اختلافات کسی نہ کسی طورپر قابل قبول تھے، مگر جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کے بعد تو دونوں فریق بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایک طرف دھڑا دھڑ گرفتاریاں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ پارٹی کارکنوں کو تشدد کے ذریعے پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ گرفتاری کے لئے پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے گھروں میں گھس گئے اور مطلوبہ شخص نہ ملنے پر اس کے رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ بات یہ ہے کہ آپس میں لڑائی جھگڑے کا معاملہ ہو یا ملک کی مختلف سیاسی جماعتوںکے اختلافی امور ہوں، سب کا حل مفاہمتی عمل ہی کے ذریعے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔مفاہمتی عمل کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ افراد اور اقوام کے درمیان تلخی کی بجائے جذبہ خیر سگالی کو فروغ حاصل ہو اور دنیا میںامن و سلامتی اورپیار و محبت کی فضا قائم ہو۔ حضور اکرمﷺ کے سامنے اہل طائف کا معاملہ ہو،یا نجران کے عیسائیوں کامعاملہ ہو ،یہود کے ساتھ برتائو کا معاملہ ہو، آپ ؐ کی طرف سے مفاہمانہ طرز عمل میں کمی نہیں آئی۔ غزوہ بدر کے میدان میں لڑائی شروع ہونے سے پہلے مشرکین کی فوج کے افراد اْس پانی کے حوض پر آئے جو کہ اسلامی لشکر کے قبضے میں تھا ، مسلمانوں کی فوج نے حوض اپنی ضروریات کے لئے بنایا تھا۔ مشرکین کو پانی دینے سے روکنا چاہا تو حضورﷺ نے فرمایا کہ انہیں پانی سے نہ روکو،بلکہ انہیں پانی پینے دو۔اس واقعے میں حضور اکرم ؐکا مفاہمتی عمل میدان جنگ میں بھی نظر آتا ہے جو انسانی عظمت و رفعت کی بلند ترین مثال کہلائی جا سکتی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہم اس رسولﷺ کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔جن کی رحمت اور محبت اپنے اور غیروں سب کے لئے ہے۔ آپ کے لائے ہوئے نظام کا مقصدصرف اپنی فلاح اور مسلمانوں ہی کی بہبود نہیں تھا،بلکہ اس کا مقصدانسانیت کی فلاح اور ترقی تھا۔آپؐ کی سیرت کا یہ خاصا رہا ہے کہ مسائل سے الجھنے کی بجائے ان کے حل کے لئے افہام و تفہیم کی راہیں نکالی جائیں، تاکہ مفامت کا عمل آگے بڑھے ۔ سیاست دانوں کے عمومی رویے میں تحمل اور برداشت کا فقدان نظر آتا ہے۔ ماحول تو پہلے ہی اتنا خوشگوار نہیں، اس پر مستزاد یہ کہ حالات بھی بگڑے ہوئے ہیں ۔شائستگی، خیالات کی دْرستگی، غور و فکر کی جگہ دشنام طرازی نے لے لی ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے اخلاقیات سے اْتر کر ذاتیات پر آجاتی ہیں۔ ایسا کوئی دن نہیں جاتا کہ ایک دوسرے پر لفظی حملے نہ کیے جاتے ہوں، طعن و تشنیع کی تو جیسے عادت سی ہوگئی ہو۔اگر خدانخواستہ حالات مزید قابو سے باہر ہوگئے تو، حالات کو بہتری کی جانب لانا مشکل ہوجائے گا۔ موجودہ دَور کاسب سے بڑا المیہ اخلاقیات کا فقدان ہے، جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ، فخر، غرور، ریا، غداری، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی، حرص، حسد، چغلی غرض یہ کہ ساری اخلاقی برائیاں، عام انسانوں اور مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ خواص میں بھی اخلاقیات کاانحطاط آگیا ہے۔ اِس انحطاط و تنزل کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے کہ ہر بری خصلت کی برائی معقول انداز میں بیان کی جائے۔ اِس سلسلے میں قرآن وحدیث کے نصوص واضح کیے جائیں تاکہ معقولیت پسند طبقہ شریعت سے قریب ہو۔ اْس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کو بھی بیان کیاجائے اور اْن کے اختیار کرنے کی تلقین کی جائے۔ درس گاہِ نبوت کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓکے اندر اخلاص و تقویٰ، شرم و حیائ، صبر وشکر کی صفات تھیں، وہ دیانت دار، امانت دار اور سخاوت و شرافت کے خوگر تھے۔ اْن کے اندر ایثار و قربانی، عفت و پاک دامنی اور تواضع و انکساری کی اعلیٰ صفات پائی جاتی تھیں۔ وہ خوش کلام، خوش الحان، خوش دِل اور رحم و کرم کے پیکر تھے، وہ ہمیشہ موت کو یاد رکھتے تھے، اْن کے معاملات کی صفائی سے لوگ متاثر تھے۔ سچ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات کو اگر عام کیا جائے تو ضرور بالضرور ایک ایسا صالح معاشرہ وجود میں آئے گا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خیرالقرون کے معاشرہ کے مماثل ہوگا۔

Leave a Reply