Dusra minus one

دوسرا مائنس ون 

9 مئی کو جو ہوا، وہ پاکستان کے حساب سے بہت زیادہ تھا لیکن اس روز جو نہ ہو سکا وہ اس سے بھی بہت زیادہ تھا۔ دیکھئے اگر منصوبہ حساب کے عین مطابق آگے بڑھتا تو کیا ہوتا۔ اب جو اطلاعات، جمع کئے گئے فون کال ریکارڈ کے مطابق آ رہی ہیں ان میں پنجاب کے ایک ائر بیس پر موجود ستر اسیّ طیاروں کو ”نذر آتش“ کر نے کا حکم بھی شامل تھا۔ بلوائیوں کو یہ ٹارگٹ ہر صورت حاصل کرنے کا حکم تھا اور اگر بلوائی ائر بیس کے اندر داخل ہو جاتے تو بڑی آسانی سے یہ کام ہو جانا تھا۔ آگ لگانے کا موقع مل جائے تو کیا رکشہ، کیا موٹر سائیکل کیا کار اور کیا ہوائی جہاز۔ لیکن پولیس نے اندر جانے کی کوشش ناکام بنا دی۔ فوج وسیع تر حکمت عملی کے تحت اس روز سامنے نہیں آئی جو بہت دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ 




ناکام کیسے بنا دی؟۔ اس لئے کہ بلوائیوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں تھی، پولیس نے پوری جان لڑا دی اور ائر بیس بچ گئی۔ ایسا ہی معاملہ لاہور کے ایک قریبی بڑے شہر میں بھی ہوا جہاں ایک چھاﺅنی کو آگ لگانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ لیکن یہاں بھی یہی ہوا۔ بلوائی چند سو تھے، کئی گھنٹے تک آنکھ مچولی جاری رہی اور ہجوم چھاﺅنی کے دروازوں تک نہ پہنچ سکا۔ 

ایک سوال لوگوں نے پوچھا ہے کہ چند سو بلوائیوں کے بل پر ان کے قائد نے کیسے سوچ لیا کہ وہ ”انقلاب“ برپا کر دیں گے اور رات ڈھلنے سے پہلے اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔ اس کا جواب بھی کالز کے ریکارڈ سے مل گیا ہے۔ منصوبہ یہ تھا کہ بھلے ہی بلوائی سینکڑوں میں ہوں گے لیکن جب وہ چھاﺅنی فتح کر لیں گے تو خبر جنگل کی آگ سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پھیل جائے گی اور ہر گلی کوچے بازار سے لاکھوں عوام نکل آئیں گے۔ 

لیکن سب معاملہ الٹ ہو گیا، اب بلوائیوں کی اپنی چھاﺅنی ”محصور“ ہے اور محاصرہ توڑنے کی کوئی سبیل ہے نہ امید۔ 

___

”چھاﺅنی“ محصور ہوئی تو شیخ رشید کی ”ٹون“ بھی بدل گئی اور اس میں انقلاب انگیز بدلاﺅ آ گیا۔ وہی شیخ صاحب جن کی زبان ہر لمحے آگ اگلتی اور مار دو، مار دو کی گردان کرتی تھی، کل کسی خفیہ مقام سے اپ لوڈ کردہ اپنی وڈیو میں نمودار ہوئے تو آنکھیں چھلک رہی تھیں، لہجہ بھّرا رہا تھا اور وہ قسمیں کھا کھا کر یقین دلا رہے تھے کہ وہ تو پرامن جدوجہد پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ان کی زندگی کو خطرہ ہے، کے ان کے الفاظ یوں تھے کہ میں زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہوں، خدا کیلئے میری جان بچاﺅ۔ 

زندگی موت کی کشمکش کا محاورہ صرف کسی جان لیوا بیماری کی صورت ہی میں بولا جاتا ہے۔ شیخ جی نے اس وڈیو میں لیکن یہ بتایا ہی نہیں کہ انہیں کون سا جان لیوا مرض لاحق ہو گیا ہے۔ 

___

شیخ جی نے اس وڈیو میں القادر ٹرسٹ والے والے کیس میں اپنی بے گناہی کی دہائی بھی دی اور کہا کہ کابینہ کے جس اجلاس میں ان کے ”قائد“ نے بند لفافہ دکھا کر ”پراپرٹی ٹائیکون“ کو /70 ارب روپے قومی خزانے سے دینے کی منظوری دی (اور بعدازاں اس کے عوض /7 ارب روپے کی ”رشوت“ وصول کی) وہ تو اس اجلاس میں موجود ہی نہیں تھے۔ 

شیخ جی قسمیں کھا کھا کر بتایا کرتے تھے کہ جینا مرنا اب ”قائد“ کے سنگ ہے اور وہ ہمیشہ ان کے وفادار رہیں گے‘ لیکن اپنی بےگناہی دکھا کر ”قائد محترم“ کو القادر ٹرسٹ کیس میں ”گوڈے گوڈے“ پھنسا کر انہوں نے یہ کون سی وفاداری نبھائی ہے۔ 

جنگل میں کوئی ”جیو“ ایسا ہوتا ہے کہ دھوپ میں جب اس کے پاﺅں جلتے ہیں تو وہ اپنے بچے کو زمین پر لٹا کر اس پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ شیخ جی کے اس طرح سے وفاداری نبھانے سے یہ ”جیو“ یاد آگیا‘ بس ایسے ہی….!

___

لگ رہا ہے بلکہ دکھ رہا ہے کہ ”مائنس“ فارمولا کامیابی سے نافذ ہونے ہی والا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایسا ہی ایک فارمولا کراچی میں بھی کامل کامیابی اور امن و سکون کے ساتھ نافذ ہوا تھا اور بعدازاں اس میں کسی خلل کی اطلاع نہیں ملی۔ دکھ رہا ہے کہ اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ سارے سنگ ساتھی ”پرلے کنڈھے“ جا کھڑے ہوئے اور ”قائد محترم“ نے 9 مئی کرکے اس کیلئے خود ہی زمین ہموار کر دی۔ زمین بلکہ ضرورت سے زیادہ ہی ہموار ہو گئی۔ اس لئے کہ 9 مئی کو کہیں بھی عوام نہیں نکلے۔ ایک بھی شہر میں عوام باہر نہیں آئے۔ ہر شہر کی جہاں جہاں حملے ہوئے‘ سائنٹیفک انداز میں گنتی کی گئی۔ تو پتہ چلا کہ ہر جگہ کئی سو افراد کا ایک تربیت یافتہ جتھہ تھا جس میں خاطرخواہ تعداد افغانیوں کی تھی اور بس۔

کسی بھی جگہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں نکلے ہوتے تو شاید زمین ہموار کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی‘ لیکن ضرورت پیش آنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔

___

مائنس ون کی صورت میں ”خلا“ پر کرنے کیلئے فواد چودھری سرگرم ہوئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی سے ملاقات ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق نیم رضامند ہیں۔ چند دنوں تک پوری رضامندی پائیں اور پھر صف اول کے قائدین میں ان کا نام بھی آجائے گا۔

فواد چودھری ہمت والے آدمی ہیں۔ اس کا مظاہرہ ضمانت پر رہائی کے بعد پولیس کو پھر سے دیکھ کر وہ کرچکے ہیں۔ان کی جگہ کوئی اورہوتا تو دس قدم چل کر ہی گر جاتا فواد چودھری ٹھہرے باقسمت‘ دس قدم پر بالکل نہیں گرے‘ گیارہویں پر گرے۔ 

___

سوڈان میں دو فوجوں کے خلاف لڑائی پھرسے چھڑ گئی ہے اور یہاں کئی لوگ اس خیال کے ہیں کہ وہاں فوج کے اندر خانہ جنگی چھڑی ہے یعنی بغاوت ہوئی ہے‘ ان افراد کے اس خیال میں یہ ”خواہش“ پنہاں ہے کہ شاید یہاں بھی ان کی ”امید“ بر آئے۔

ان اصحاب کو اصل ماجرے کا علم ہی نہیں۔ سوڈان میں سابق صدر کی مہربانی سے دو دو فوجیں ہیں۔ ایک ریاستی فوج تو پہلے سے ہے‘ دوسری فوج پیراملٹری کے نام سے ان صاحب نے خود نگرانی کی۔ اسے پیراملٹری کے بجائے ذاتی ملیشیا کہنا مناسب ہوگا اور آپ ہی ذاتی ملیشیا فوج سے لڑ رہی ہے۔ گویا خانہ جنگی تو ہے‘ لیکن ایک کمزور کردی گئی ریاست میں‘ فوج کے ادارے میں کوئی خانہ جنگی نہیں ہے۔

Leave a Reply