Mulk ka bara masla janlewa mhngai

ملک کا بڑا مسئلہ جان لیوا مہنگائی




حکومت نے بجٹ سے پہلے ہی عوام کو ریلیف دیا ہے اور پٹرول 8روپے اور ڈیزل 5روپے فی لٹر سستا کردیا ہے تاہم مٹی کے تیل کی قیمت برقرار رکھی ہے۔ پٹرول کی نئی قیمت 262روپے جبکہ ڈیزل کی 147.68روپے فی لٹر مقرر ہوگئی ہے ۔امریکی ڈالر انٹر بینک میں چند پیسے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 11 روپے سستا ہوا ہے۔انٹر بینک میں ڈالر 37 پیسے سستا ہونے کے بعد 285 روپے 10 پیسے کا ہو گیا۔گزشتہ روز انٹر بینک میں ڈالر 285 روپے 47 پیسے پر بند ہوا تھا۔ادھر اوپن مارکیٹ میں ڈالر 25 روپے سستاہوا تھا۔دوسری جانب پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا مثبت آغاز ہوا جو کچھ دیر بعد ہی منفی میں تبدیل ہو گیا۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس 30 پوائنٹس کی کمی سے 41 ہزار 299 پر آگیا۔گزشتہ روز 100 انڈیکس 41 ہزار 330 پوائنٹس پر بند ہوا تھا۔ اس وقت ملک میں مہنگائی عروج کو چھو رہی ہے اور اشیاء خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ۔متوسط طبقہ تو جان لیوا مہنگائی میں پس چکا ہے ،جبکہ عام آدمی کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں ۔اس وقت میں انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمت69ڈالر ہو چکی ہے،جو ماضی کی نسبت کافی کم ہو چکی ہے مگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں صرف 8روپے فی لٹر کمی کی گئی ہے ،جبکہ میں ماضی میں جب عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت 124ڈالر تھی تب تو یہاں عوام کو 150روپے فی لیٹر پٹرول ملتا تھا،مگر موجودہ حکومت آکر پٹرول کی قیمت میں یکدم اضافہ کر دیا تھا لیکن اب 69ڈالر ہونے کے باوجود عوام کو 262روپے فی لٹر مل رہا ہے ۔اس سے معلوم ہو اکہ حکومت عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے ۔پٹرولیم مصنوعات جب بھی مہنگی ہوتی ہیں تو ا سکا اثر ہر چیز پر پڑتا ہے ،گاڑیوں کے کرایوں سے لیکر سبزیوں تک ،ہر چیز کے دام عام آدمی کے کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں ۔ پٹرول کی قیمت مسلسل بڑھنے سے ٹرانسپورٹر نے کرائے من مانے انداز میں بڑھا لیے گئے تھے، انٹر سٹی بسوں والوں اپنی من مانی سے کرائے وصول کرتے رہے، کیونکہ انھیں روک ٹوک کرنیوالا کوئی نہیں ہے ۔ادارہ شماریات کے اعداد وشمار کے مطابق جنوری 2012 میں اوسطاً ایک عام محنت کش 571 روپے یومیہ کما رہا تھا اور جون2023 میں ایک محنت کش کی اوسط آمدن 1250 روپے یومیہ ہے۔ لیکن اس دوران اشیا خورونوش کی قیمتیں کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہیں۔ حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز پر مختلف اشیا ء سستی کی ہیں ،جن میں کوکنگ آئل 93 روپے تک اور گھی کی فی کلو قیمت میں 68 روپے کی کمی کردی۔مگر اس کے ساتھ ہی ان کا معیار گر گیا ہے ،جبکہ چیک اینڈ بیلنس نام کی کوئی چیز ملک میں موجود ہی نہیں ہے ۔اس وقت مہنگائی نے عام آدمی کو15برس پیچھے دھکیل دیا ہے ۔عام آدمی کی قوت خرید کی سطح بلند ہونے کے بعد 2008 کی سطح سے بھی نیچے گر گئی۔حالانکہ تب دنیا بھر میں اس قدر معاشی بحران آیا تھا ،جس نے بڑی بڑی سلطنتوں میں زلزلہ بر پا کر دیا تھا ۔مگر تب بھی عام آدمی کی زندگی اس قدر اجیرن نہیں ہوئی تھی ۔ماضی میں مہنگائی کے تناسب سے آمدن میں بھی اضافہ ہوتا تھا ،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جاتا تھا ،تو تب قیمتیں بڑھنے سے قوت خرید کم نہیں ہوتی تھی ،مگر اس وقت پاکستان میں اس تناسب سے لوگوں کی آمدن نہیں بڑھی۔ صرف اشیا ء خوردونوش ہی نہیں بلکہ بجلی، گیس اور کرایوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی کے منہ زور طوفان نے کئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ پیپرز مہنگا ، کئی صنعتیں بند ، کچھ شدید مشکلات سے دوچار، اسی باعث کئی افراد بے روزگار ہوئے ۔گزشتہ روز کاروبار کے آغاز کے ساتھ ہی سٹاک مارکیٹ میں مندا تھا ،کیونکہ ڈالر کی قیمت میں ٹھہرائو ہی نہیں آ رہا تھا ، صبح کے وقت ڈالر کی قیمت 11روپے گر گئی تھی ،مگر اس کے بعد بھی اس میں استحکام نہیں آیا ،25روپے جب ایک دن میں ڈالر کی قیمت کم ہو جائے پھر اسی تناسب سے بڑھ جائے تو کاروبار کیسے ہو گا ؟ حکومت نے رات کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافہ کیا ہے ۔مگر ضلعی انتظامیہ نے ابھی تک نہ تو گاڑیوں کے کرایوں میں کمی کروائی ہے نہ ہی ابھی کسی چیز کے دام کم ہوئے ہیں ۔اگر صنعتی پیداوار کی بات کی جائے تو ڈالر کی قیمت بھی کسی ایک جگہ پر نہیں ٹھہر رہی، پاکستان میں روپے کی اتنی بے قدری کبھی نہیں ہوئی جتنی اب ہے، اب ڈالر بہت اونچی اڑان بھر رہا ہے۔ اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کے بقول معیشت مستحکم ہو چکی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ بیرون ملک سے پاکستانی ڈالر پاکستان بھیج رہے ہیں لیکن پھر ڈالر کی قیمت کیوں چڑھتی جا رہی ہے۔درحقیقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے کرنسی بہت کمزور ہوئی ہے۔ پاکستان کو تیزی سے بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے، جو بنیادی طور پر بڑھتے ہوئے درآمدات اور برآمدات کے تجارتی فرق کی وجہ سے ہے۔اس وقت ملک کا بڑا مسئلہ مہنگائی ہے،جب تک مہنگائی کنٹرول نہیں ہوتی ۔تب تک نہ تو حکومت کے لیے الیکشن میں جانا سودمند ہوگا نہ عوام انھیں دوبارہ کسی صورت قبول کریں گے ۔

Leave a Reply