معاشی تناو¿ اُور تنازعات

معاشی تناو¿ اُور تنازعات




شواہد ہیں کہ معاشی استحکام کی کوششیں مالی وسائل کی کمی کے باعث کامیاب نہیں ہو رہیں اور اِس سے تنازعات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ اِن تنازعات اور معاشی تناو¿ کے درمیان کسی ’جال‘ کی طرح ہے جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ کئی ممالک کو متاثر کئے ہوئے ہے ایک طرف‘ بگڑتے ہوئے معاشی حالات تشدد کو بڑھاتے ہیں یا تشدد کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جبکہ تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے معاشی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے جو فی الوقت میسر نہیں ہے‘بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے شائع ہونے والے ایک حالیہ مقالے میں ایسے ہی حالات کا احاطہ کیا گیا ہے‘ مقالے کا عنوان ’میکرواکنامک صورتحال اور تنازعات‘ ہیں اور اِس میں اعداد و شمار سے ثابت کیا گیا ہے کہ کس طرح کسی ملک کو درپیش معاشی مجبوریاں اُس کے ہاں مختلف نوعیت کے تنازعات کا باعث بنتی ہیں۔ مذکورہ مطالعے میں 133 ممالک کی 30 سالہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ یہ سبھی ممالک کم آمدنی یا درمیانی آمدنی رکھنے والے ممالک ہیں اور اِن کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ عوام کی اکثریت کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوئیں اور اِسی کی وجہ سے تنازعات بھرے واقعات ظاہر ہوئے‘ اجناس بنیادی طور پر کسی ملک کی برآمدی قیمتوں اور اس کی درآمدی قیمتوں کے درمیان تناسب کی نمائندگی کرتی ہیں اور اِس کے نتیجے میں قومی آمدنی پر اثر پڑتا ہے۔ اعداد و شمار کے تجزیے کی بنیاد پر ’آئی ایم ایف‘ کے مقالے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اجناس کی قیمتوں میں ردوبدل اور کمی سے تنازعات کی تعداد اور تنازعات کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کم آمدنی رکھنے والے ممالک میں جب قومی آمدنی کم ہوتی ہے تو وہاں کے رہنے والے اپنی قوت خرید سے ضروریات زندگی پورا نہیں کر سکتے اور اِس سے معاشرے میں ایک خطرناک (شدید) عدم مساوات جنم لیتی ہے۔ برآمدات سے کم رقم حاصل ہونے اور درآمدات کے لئے زیادہ ادائیگی کرنے کی وجہ سے قومی آمدنی بھی کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے قومی مالیاتی پالیسی کی اصلاح نہیں ہو پاتی اور رکاوٹیں تنازعات کو روکنے یا اِن کے معاشی اثرات کم کرنے کی ریاست کی صلاحیت کو کمزور کرتی ہیں‘ جو بعد میں تشدد کا باعث بنتی ہیں‘ اس طرح کے نتائج اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ معاشی تناو¿ کی وجہ سے تنازعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ یقینا تنازعات سیاسی‘ سماجی اور معاشی عوامل کے مابین پیچیدہ تعلق (تعامل) کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ معاشی تناو¿ اکثر سماجی و سیاسی کشمکش کی بدولت تشدد کے لئے محرک کے طور پر کام کرتا ہے یا پھر موجودہ تنازعہ کو مزید خراب کرنے کا باعث بنتا ہے۔ معاشی عوامل جیسا کہ روزگار کی کمی یا ناکافی تنخواہ‘ افراد کو تشدد جیسی غیر پیداواری سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ خاص طور پر اگر تشدد کا سہارا لینے سے انہیں کچھ فوری فائدہ حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے یا یہاں تک کہ انہیں اپنے حالات کو تبدیل ہونے کی اِس سے اُمید ملتی ہے ’آئی ایم ایف‘ مارکیٹ پر مبنی کارکردگی کے اصول پر کارکردگی کا تعین کرتا ہے جس کا مقصد بیرونی قرضوں کی واپسی میں مشکلات کا شکار ریاستوں کو اپنی معاشی صورتحال بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنا ہے تاہم آئی ایم ایف عالمی اقتصادی نظام پر سوال نہیں اٹھاتا جو دہائیوں سے غریب ممالک کے کندھوں پر بوجھ ہے اور یہ ’لبرلائزیشن‘ یعنی آزاد معیشت پر زور دیتا ہے۔ کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال میں سب سے کلیدی کردار اجناس کی قیمتوں کا ہوتا ہے جن میں اتار چڑھاو¿ پاکستان جیسے کم آمدنی والے ممالک کے لئے ’بڑا مسئلہ‘ ہے۔ اِن بنیادی ضروریات کی اجناس کی قیمتیں چاول‘ کپاس یا دیگر خام مال کی پیداوار پر منحصر ہوتی ہیں۔ اسی طرح ستر فیصد نام نہاد ترقی پذیر ممالک زرمبادلہ کمانے کے لئے اِنہی بنیادی اجناس کی برآمد پر انحصار کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بنیادی ضرورت کی اجناس کی قیمتیں اتار چڑھاو¿ کا شکار رہتی ہیں اور بنیادی اشیاءکی قیمتیں تیار شدہ اشیاءکی قیمتوں کے مقابلے میں کم بھی رہتی ہیں۔ یہ ’یک طرفہ‘ معاشی نظام غریب ممالک کی معیشت کو قابو کئے ہوئے ہے اور وقت کے ساتھ اِن غریب ممالک میں سرمایہ کاری اور سازوسامان خریدنے کی سکت کم ہوتی چلی جا رہی ہے لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ غریب ممالک اور ان کے غریب عوام کم منافع اور زیادہ معاشی خطرات جیسے گھمبیر و دوہرے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ اِس مسئلے کے حل کے لئے محققین نے ’غیر مساوی تبادلے کا نظریہ‘ پیش کیا ہے جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح امیر اور مالی طور مستحکم ممالک میں معاشی ترقی نوآبادیاتی دور کے بعد غریب ممالک سے وسائل پر منحصر ہے۔ امیر اور صنعتی ممالک کی جانب سے مختص کردہ وسائل کی مالیت سالانہ کھربوں ڈالر بنتی ہے اور ’ترقی پذیر دنیا‘ کو فراہم کی جانے والی امداد کی رقم اس کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اِن تلخ زمینی حقائق کے باوجود‘ آئی ایم ایف اجناس کی قیمتوں کی غیر مساوی اور غیر منصفانہ نوعیت پر بہت کم توجہ دے رہا ہے اور اس کی بجائے وہ غریب اور تنازعات میں گھرے ممالک کو مزید قرضے لینے کی ترغیب دے کر ان کی مدد کرنا چاہتا ہے جو کہ کسی بھی صورت مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید قرض لینے سے پاکستان جیسے غریب ممالک کے مسائل اور اِن ممالک میں سر اُٹھانے والے تنازعات حل نہیں ہوں گے بلکہ اِن کی مقدار و شدت میں اضافہ ہوگا۔ ہموار معیشت اور غربت کے خاتمے جیسے اہداف کبھی بھی قرضوں پر انحصار کرنے سے حاصل نہیں ہوتے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سیّد ایم علی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

Leave a Reply