Chaudhary sarwar ky irshadat alia

چوھدری سرور کے ارشادات عالیہ




چودھری سرور نے کیا خوب بات کہی ہے کہ ”پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم نے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا ہے پی ڈی ایم کے پاس ریاست بچانے کا کوئی بہتر راستہ نہیں ہے 75 سالوں سے اقتدار پر قابض لوگوں سے قبضہ چھڑانا ہے، عائشہ گلالئی کی مسلم لیگ ق میں شمویت کا خیر مقدم کرتے ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔ چودھری سرور خوب آدمی ہیں۔ باتیں بڑی اچھی کرتے ہیں برطانوی نظام سیاست و صحافت کی مثالیں بھی دیتے ہیں۔ وہ ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں انہوں نے اپنی برادری کی تنظیم وتعمیر کے ذریعے نہ صرف گلاسگو / سکاٹ لینڈ میں اپنی سیاست کو کامیاب بنایا ہے بلکہ پاکستان میں بھی برادری ازم کے ذریعے، اپنا حلقہ پکا کرنے کی شعوری کاوشیں کر رہے ہیں۔ وہ ترقیاتی کام کر کے اپنے حلقے کے عوام کی دلجوئی کرنے میں یدِطولی رکھتے ہیں۔ میل ملاقات میں بھی، گفتار میں بھی توازن قائم رکھتے ہیں رواداری کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن اقتدار میں رہنے اور مزے لوٹنے کے حوالے سے وہ کسی دوسرے سیاستدان سے ہرگر مختلف نہیں ہیں انہوں نے جب سے پاکستان میں سیاست شروع کی ہے اور انہیں ایسا کرتے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے سیاست میں ان کا ورود سعید مسلم لیگی دور حکمرانی (2013-18) میں ہوا۔ وہ نواز شریف کے سایہ شفقت میں پنجاب کے گورنر بنا دیئے گئے تھے گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر انہوں نے آئینی گورنر کا کردار ادا کرنے کی بجائے، اپنی سیاست کی آبیاری بھی کرنے کی کوشش کی، صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے انہوں نے کام کرنا چاہا لیکن شہباز شریف کے ساتھ انکی مخاصمت شروع ہوئی نتیجہ انہیں گورنر ہاؤس سے نکلنا پڑا۔ کیونکہ وہ اقتدار میں رہنے کے شوقین ہیں اس لئے انہوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ لو لگا لی۔ گورنر بنا دیے گئے انہوں
نے یہاں بھی اپنی گروہی سیاست شروع کر دی۔ صوبہ پنجاب میں پی ٹی آئی پہلے ہی تقسیم تھی چودھری صاحب کی آمد نے اس تقسیم میں بھی تقسیم کر ڈالی۔ اپنا گروپ بنا کر سیاست کرنے لگے حلقے کی سیاست، برادری کی سیاست پر زور دیا پارٹی مفادات یا نظریات انکی ترجیحات میں شامل نہیں تھے۔ جب وہ مسلم لیگ ن میں تھے تو اس وقت بھی ایک طرف ذاتی و گروہی مفادات کا دھیان تھا وہ پارٹی پالیٹکس کی بجائے ذات برادری سیاست پروان چڑھاتے رہے لیکن شہباز شریف جیسی شاطر اور گھاگ ذات شریف کی موجودگی میں انہیں کھل کر کھیلنے اور گل کھلانے کے مواقع میسر نہیں آ سکے اور انہیں مجبوراً گورنرہاؤس بھی چھوڑنا پڑا اور پارٹی بھی۔
پی ٹی آئی میں کیونکہ گروہی دھڑے بندیاں پہلے ہی موجود تھیں اس لئے چودھری کو یہاں کھل کر کھیلنے اور اپنے دھڑے کی ساخت پرداخت کرنے کے مواقع ملے ہم دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی پر ذرا سا دباؤ آیا تو انہوں نے مسلم لیگ ق کے سایہ عاطفت میں پناہ ڈھونڈ لی۔
یاد رہے مسلم لیگ ہی وہ جماعت ہے جس نے ہر حریف سیاستدان کو بھی اپنے دامن میں جگہ دی اور ہر فوجی آمر کو بھی خوش آمدید کہا۔ یہی مسلم لیگ کو نسل مسلم لیگ بنی۔ یہی مسلم لیگ کنونشن مسلم لیگ بنی۔ جناح لیگ بھی یہی تھی، قیوم لیگ ہو یا چٹھہ اور جونیجو لیگ۔ پھر ن لیگ اور ق لیگ بھی یہی مسلم لیگ تھی۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے بھی مسلم لیگ کو پنجوں میں رکھ کر اپنے اقتدار کو دوام بخشا۔ جاگیرداروں، وڈیروں، تمن داروں، چیموں، چٹھوں، در یشکوں، چودھریوں اور میاں صاحبوں نے اسی جماعت کے سائے میں پناہ ڈھونڈی۔ اقتدار پر قابض رہنے کے لئے اس جماعت کے کندھے استعمال کئے گئے گزرے 75 سالوں میں مسلم لیگ اور یہی طبقات مقتدر رہے اقتدار کی طلسم ہوشربا اسی جماعت اور اس کے قابضین کے کارہائے نمایاں سے معمور ہے ہمارے چودھری سرور اقتدار کی غلام گردشوں سے چکر لگا کر اسی جماعت کے سایہ عاطفت میں آن پہنچے ہیں اور نعرہ زن ہیں کہ قوم کو اقتدار پر قابضین سے نجات دلائیں گے۔ واہ جی واہ۔
مسلم لیگ ق کا ظہور بہت دور کی بات نہیں ہے یہ جماعت کسی سیاسی نظریے کی بنیاد پر قائم نہیں کی گئی بلکہ اقتدار کی رسہ کشی اور محلاتی سازشوں کا شاخسانہ ہے 1977 کی عوامی تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا لگا پھر بھٹو کی پارٹی کو ختم کرنے کی شعوری کاوشوں کے نتیجے میں محمد نواز شریف آسمانِ سیاست پر طلوع ہوئے۔ مسلم لیگ کے پرچم تلے سیاست کرتے رہے حتیٰ کہ پھر جونیجو لیگ اور چٹھہ لیگ ظہور پذیر ہو گئیں۔ منظور وٹو پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی بن گئے۔ مشرف کے دور میں مسلم لیگ ق کا ظہور ہوا اور اقتدار کا کھیل کھیلا گیا۔ ہم نے دیکھا کہ جنرل مشرف نے بھی مسلم لیگ بنائی یہ سب سیاست مسلم لیگوں کے ذریعے ہوتی رہی ہے اور صرف و صرف اقتدار کے حصول کے لئے۔ ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ چودھری پرویز الٰہی کس طرح جوڑ توڑ کرکے عمران خان کے ساتھی بن کر پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے پھر انہوں نے اپنی پارٹی ہی پی ٹی آئی میں ضم کرنے کی کوشش کی حتیٰ کہ انہیں پارٹی سے ہی نکلنا پڑا اور وہ ایک فرد کے طور پر پی ٹی آئی کا حصہ بنے۔ پارٹی چودھری شجاعت کی سربراہی میں قائم دائم ہے اور چودھری سرور صاحب اس پارٹی میں شامل ہو کر، ایک بار پھر نئے سرے سے حصول اقتدار کی جدو جہد شروع کر چکے ہیں۔ چودھری صاحب مکمل طور پر روایتی سیاستدان ہیں پارٹی بدلنے، بیان بدلنے، حتیٰ کہ اصول پسندی کا چرچا کرتے ہوئے مکمل طور پر بے اصولی ان کا شعار ہے اقتدار کا حصول ان کا مقصدِ وحید ہے اس کے لئے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے وہ کر گزریں گے۔

Leave a Reply