Mehngai aur ainda election

مہنگائی اور آئندہ الیکشن




کتنے روگ ہیں حکمرانوں کی جان کے ساتھ جن کے ساتھ انہیں جینا ہے۔گو ایسا جینا بھی کیا جینا ہے۔مہنگائی کاخوف،آئندہ الیکشن کا خوف،بدلتے سیاسی موسموں کا خوف،اپنی کارکردگی کا خوف،ڈالر کی اڑان اور روپیہ کی گران کا خوف۔مل جل کر یہ سب خوف ایک روگ بن گئے ہیں جن کا بوجھ مسلم لیگ (ن)کے دل ناتواں کو اٹھانا ہے۔بعضوں کو گماں غالب کہ منہ زور مہنگائی کو لگام لگانے کے لیے اسحاق ڈار ایسا تیر چلائیں گے جو نشانے پر لگے گا۔بہتوں کو یقیں کامل کہ بجلی اور پٹرول سستا کرنے کے لیے وہ ایسا ہنر آزمائیں گے کہ بگڑی بن بن جائے گی۔اس سارے منظر نامے میں عمران خان کے رنگ برنگے بیانات اور پینترے بدلتے احساسات مریم نواز کو تقویت بخشا کئے کہ جو بھی ہو میدان ہمارے ہاتھ میں رہے گا۔اس بساط اور بازی سے الگ تھلگ اک زرداری ہیں جن کا کلمہ وکلا م اور نامہ و پیام سن کر پی ٹی آئی کے منحرف لوگ دھڑا دھڑ ان کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔پی ٹی آئی کے اڑے پنچھیوں کے لیے آج کل زرداری کی باتیں ایسی ہیں کہ خوشبو آئے۔عمران خان کے جنون کے مقدر میں تو نہیں کہ اندھیری رات میں چپ چاپ ان کا محبوب آئے۔اب کی بار تو انہیں زخم ایسے لگے ہیں کہ بہت سی پری چہرہ آنکھوں میں بھی آنسو آئے۔سو سوالوں کا ایک سوال کہ عام انتخابات میں کس کی ہنر کاری سے شگوفے پھوٹیں گے یا کس کی سازگاری سے پھول کھلیں گے؟یا گزشتہ انتخابی نتائج کی طرح کسی تیسرے کے پات ہرے ہونگے اور اس پر بہار آئے گی۔
اول روز سے پاکستان میں انتخابات قیامت آفریں اور نتائج حشر بیں ہو ا کئے۔ہاں البتہ حالات و واقعات میں بعض بنیادی یا ہنگامی تبدیلیاں بھی عوام پر اثر انداز ضرور ہوتی ہیں۔کوئی مبالغہ آمیزی نہیں کہ مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی اور بجلی و پٹرول کی قیمتیں بھی زمیں پر نہیں۔بے روزگاری اور مہنگائی بھی گھر گھر کی کہانی ٹھہری۔ کیا ایسے میں مسلم لیگ ن معرکہ مار لے گی؟ ٹھہریئے پہلے سیاسی سائنس کے ایک اہم اور حساس سوال پر غور کیجئے۔۔۔کیا پاکستان میں کسی ایسی لہر کا امکاں و ساماں موجود ہے جو انتخابی نتائج کو یکسر بدل کر رکھ دے؟جی نہیں کیونکہ انتخابی ماہرین اس کا جواب نفی میں دیا کئے۔یہ دسمبر 2012 کی سرد شام ہے۔راوی روایت کرتا ہے کہ جاتی امرا میں محفل جمی تھی اور انتخابات پر گفتگو چل رہی تھی۔ہر کوئی اپنی رائے،اندازہ،ظن و گماں بیاں کرنے چلا تھا۔ نواز شریف نے اپنے رفقا کو کہا۔۔۔ایک بات یاد رکھیں پیپلز پارٹی کے پاؤں تلے زمین سرک چکی، اب ہمارا مقابلہ جتنا بھی اور جیسا بھی ہونا ہے وہ تحریک انصاف سے ہونا ہے۔11 سال بیت چکے لیکن منظر نامہ وہی ٹھہرا۔قیاس چاہتا ہے کہ مسلم لیگ ن انتخابی حکمت عملی میں اب بھی اپنی توجہ پی ٹی آئی پر مرکوز اور مجتمع کرے گی۔ دوسرے نمبر پر لیگی قائدین و اکابرین مذہبی جماعتوں پر توجہ دیں گے کہ ہر بار لیگ کا ووٹ بنک یہیں کٹتا اور بٹتا ہے۔
جب سے پیپلز پارٹی کی کمان آصف زرادری نے سنبھا لی ہے،تب سے ان کا انتخابی منصوبہ ایک ہی ٹھہرا کہ کسی نہ کسی طور مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک میں نقب لگائی جائے۔ہو نہ ہو اب کی بار بھی ان کا بنیادی و جوہری نکتہ یہی ہوگا کہ سیاسی مخالفوں کو ٹکڑیوں اور ٹولیوں میں بانٹ دیا جائے۔1970 میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے۔تب سے لمحہ موجود تک ایک حقیقت نکھر اور نتر کر سامنے آ چکی کہ بائیں بازو کی پیپلز پارٹی اقتدار کی بارگاہ میں اسی لیے کشاں کشاں چلی آتی ہے کہ اس کے حریفوں یعنی دائیں بازو کے ووٹ تقسیم ہوتے رہے۔1988سے تا ایں دم نواز شریف ہر الیکشن میں جی جان سے اور ڈٹ کر صف آرا ہوتے آئے ہیں۔ اس لیے بھی پی پی کی حکمت عملی مزید نکھری اور سنوری کہ مسلم لیگ ن کے حریفوں کے ووٹ بنک کو بڑھایا جائے تاکہ مطلوبہ ہدف حاصل ہو سکے۔پیپلز پارٹی کی کامیابی و کامرانی کی کلید اس میں ٹھہری کہ مخالف ووٹ تقسیم در تقسیم ہوتے رہیں۔1970 میں پیپلز پارٹی کو39 فیصد اور مخالفوں کو61 فیصد ووٹ ملے۔1993 میں یہ تیسری بار اقتدار میں آئی لیکن اس کے ووٹ38 فیصد اور مخالف جماعتوں کے62 فیصد تھے۔2008 میں 31 فیصد اور مخالفوں کے69 فیصد تھے۔ (بحوالہ پلڈاٹ رپورٹ:2016) کہا جاتا ہے دائیں بازو کے ووٹوں کی تقسیم نے پیپلز پارٹی کو ہر بار فائدہ پہنچایا۔
تیسری بڑی پارٹی پی ٹی آئی ٹھہری۔اللہ اللہ ایک جانب کپتان کو اپنے زوال کا ملال اور دوسری جانب سفاک اور سرد رتوں کا خیال۔اب پنڈی کی پرانی خنک اور خوشگوار ہوائیں ان کے آنگن یا صحن میں کب آتی ہیں۔پھر بھی ان کی منصوبہ بندی پہلے والی رہی کہ ان کا مرض بھی پرانا ہے اور معالج بھی۔غالب کا معشوق ہی سادہ و پرکار نہ تھا حضور عمران خان بھی کچھ کم نہیں۔کپتان کی آج بھی حکمت عملی یہی رہی کہ خود کو پاک صاف باور کرایا جائے،باقی تما م چہروں پر کالک تھوپ کر اپنے انتخابی حسن و جمال اور رعنائی و تازگی کو جلا بخشی جائے۔اب وقت بتائے گا کہ کپتان کی انتخابی کارکردگی کیسی رہی۔اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں، انتخابی حکمت عملیوں اور نتائج کے جھمیلوں سے الگ بھی ایک سپاٹ حقیقت ٹھہری۔کسی بھی پارٹی کو پڑنے والے ووٹ اسے ملنے والی مجموعی نشستوں کے تناسب سے مطابقت کبھی نہیں رکھتے۔حرف آخر کہ ووٹوں کے قطروں کو سیٹوں کے گہر ہونے تک بڑے طوفانوں اور کڑے بحرانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

Leave a Reply