Na kam bgawat!!!

!!!ناکام بغاوت

نو مئی کے دلخراش اور افسوسناک واقعات کو صرف ایک سیاسی جماعت کا ردعمل سمجھنا مناسب نہیں ہے۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ اس سارے عمل کو ایک سیاسی جماعت کا ردعمل قرار دیا جائے۔ گوکہ پاکستان تحریک انصاف نے اسے ابتدائی طور پر اور عمران خان آج تک اسے کارکنوں کا ردعمل قرار دیتے ہیں لیکن ذرا سوچئے جس دن یہ پرتشدد واقعات رونما ہوئے اس دن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اگر مزاحمت ہوتی مظاہرین کو طاقت کے زور پر روکنے کی کوشش ہوتی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اور مظاہرین آمنے سامنے ہوتے بپھرے ہوئے مظاہرین کو طاقت کے زور پر روکا جاتا تو کتنا خون خرابہ ہوتا، لاشیں گرتیں، سڑکیں خون سے رنگ جاتیں تو کیا ہوتا، کیا کوئی تسلیم کرتا کہ طاقت کا استعمال نہیں ہوا اور ملک کی حفاظت کے ذمہ داروں نے اپنے ہی لوگوں کا حملہ برداشت کیا، اس دن اپنے ہی دفاعی اداروں کی تذلیل کی گئی ان کی طاقت کو للکارا گیا، انہیں اشتعال دلایا گیا، صرف یہی نہیں کہ زندہ لوگوں کی تذلیل کی گئی بلکہ شہدا کی بھی بےحرمتی ہوئی اور ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے بے پناہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر طرح کی توڑ پھوڑ، جلاﺅ گھیراو¿، دہشت گردی اور بےحرمتی پر پہاڑ جیسے صبر کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ بحث الگ ہے کہ اس میں بیرونی ایجنڈا سوچ یا منصوبہ بندی شامل تھی یا نہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ سارا کام اندرونی لوگوں نے ہی کیا تھا ۔ سارا عمل اپنے لوگوں کا تھا ۔ بھڑکانے والے اپنے تھے، بھڑکنے والے اپنے تھے، آگ لگانے والے اپنے تھے، جلنے والے اپنے تھے، مارنے والے اپنے تھے، مرنے والے اپنے تھے، لوٹنے والے اپنے تھے، لٹنے والے اپنے تھے۔ یہ ساری تکلیف برداشت کی گئی اس دن۔مقصد صرف ایک تھا کہ دفاعی ادارے جواب دیں، جوابی حملہ کریں اور بس پھر اس کے بعد ایک ایسی آگ لگے جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے۔ بنیادی طور پر نو مئی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بغاوت کی گئی، میں پھر کہتا ہوں بغاوت کی گئی ۔ باغیوں کا پہلا مقصد تباہی اور دوسرا مقصد قبضہ تھا۔ کسی حد تک وہ تباہی مچانے میں تو کامیاب ہوئے لیکن قبضے کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا گیا۔




ذرا سوچئے کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مظاہرین کے تشدد کا جواب طاقت سے دیتے تو حالات کیا ہوتے، یہ سوچئے کہ اگر پرتشدد مظاہرین اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے تو ملک کا کیا بنتا۔ آج کہہ رہے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ کیا نو مئی جب حملہ آور قومی شناخت کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے رہے اس دن متاثر ہونے والوں کے انسانی حقوق نہیں تھے۔ کیا آزادی ، ریاستی املاک، فوجی تنصیبات پر حملے ہو رہے تھے اس دن کسی کے حقوق متاثر نہیں ہوئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ نو مئی کو دفاعی اداروں نے بہترین حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ایک بغاوت کو ناکام بنایا ہے ۔ باغی بہکاوے میں آ کر یا نفرت کا شکار ہو کر اپنے ہی گھر کو جلانے کی کوششوں میں لگے ۔ اگر وہ کامیاب ہوتے تو کیا وہ کسی پر رحم کرتے یقینا نہیں کرتے۔ اب ان ظالموں کے ساتھ بھی کسی طریقے سے رحم نہیں ہونا چاہیے۔ جس نے جو کیا ہے اسے بھگتنا ہی ہو گا ۔ حملہ آوروں کی سازش کامیاب ہوتی تو نتائج بھیانک ہوتے ۔ درست ہے کہ آج ملک میں حالات خراب ہیں لیکن نو مئی کو ہونے والے افسوسناک واقعے میں اگر بلوائیوں کو زیادہ موقع ملتا تو آج حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہوتے پھر غیر ملکی بھی مداخلت کرتے اور خدانخواستہ وہ ہوتا جو ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ کیا اس دھرتی کے کوئی حقوق نہیں ہیں، کیا اس دھرتی کی حفاظت کرنے والوں کے حقوق نہیں ہیں، کیا انیس سو سینتالیس میں ملنے والی آزادی کے لیے جان قربان کرنے والوں کے حقوق نہیں ہیں۔ یہ آزادی جو ہمیں ملی ہے اس کے لیے لاتعداد قربانیاں دی گئی ہیں۔ یہ آزادی تحفے میں نہیں ملی۔ اس آزادی کا تحفظ کرنا سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ کوئی آزادی چوبیس کروڑ سے زائد انسانوں کی آزادی اور بہتر مستقبل سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ آج جتنے بھی لوگ تحریک انصاف سے الگ ہو رہے ہیں انہیں یہ تو اندازہ ہوا ہے کہ وہ ایک غلط کام اور ملک کو نقصان پہنچانے والے بیانیے کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے ۔ ورنہ یہ وہی لوگ تھے جو جان دینے، گولیاں کھانے، خون کے آخری قطرے تک ڈٹے اور جمے رہنے کے دعوے کرتے تھے۔ کبھی ریڈ لائن قرار دیتے تھے کبھی ٹائیگر بنتے تھے، کبھی حقیقی آزادی کے نعرے لگاتے تھے ۔ بنیادی طور پر یہ سارے نعرے غیر حقیقی، غیر ضروری اور عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہیں ۔ نو مئی کے دلخراش واقعات کے پیچھے درحقیقت یہ جذباتی نعرے ہی ہیں۔ جنہوں نے عام آدمی کو بھڑکایا ورنہ آپ کس حقیقی آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب کہ آپ کا دو نہیں ایک پاکستان اور نیا پاکستان کا پرانا بیانیہ بڑی طرح پٹ چکا ۔ ساڑھے تین سال تک حکومت میں رہنے کے باوجود ان نعروں پر شاید ایک فیصد بھی عمل نہ کر سکے ۔ ناکام حکومت سے ناکام بغاوت پی ٹی آئی کی تاریخ کے وہ سیاہ اوراق ہیں جن سے پیچھا چھڑانا بھی چاہیں تو نہیں چھڑا سکتے ابھی تو لوگوں تک حقیقت پہنچنا باقی ہے۔ ابھی تو پورا سچ سامنے آنا باقی ہے۔ وہ جو مشکلات سے نکالنے کا نعرہ لگا کر حکومت میں آئے تھے ان کی وجہ سے ملک کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ آج اگر ڈالر بے قابو ہے تو اس کی وجہ تحریک انصاف کی ناکام حکومت اور اس کے بعد عدم استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے تشدد اور مزاحمت کی سیاست ہے۔ ایک سال سے زائدکا وقت گذر چکا انہوں نے ریاستی اداروں اور اہم شخصیات کو نشانے پر رکھا ہے ۔ جھوٹ سے دن شروع کرتے ہیں اور اگلے دن کے جھوٹ سونے سے پہلے تیار کر کے سوتے ہیں۔ تحریک انصاف چھوڑنے والوں سے یہ گلہ ہمیشہ رہے گا کہ جب ملک کو بچانے اور ریاست کے ساتھ وفاداری نبھانے کا وقت تھا انہوں نے سیاست بچانے کو ترجیح دی ۔ انہوں نے اپنی اپنی سیٹوں کو محفوظ بنانے کے لیے اس جھوٹے بیانیے کا ساتھ دیا جس نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ عوام کو بھڑکایا، ملک میں نفرت پھیلائی، معصوم ذہنوں کو خراب کیا۔

آخر میں سیف الدین سیف کا کلام

مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے

مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے

کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ فسان محبت

میں اسے سنا کے روو¿ں وہ مجھے سنا کے روئے

مری آرزو کی دنیا دل ناتواں کی حسرت

جسے کھو کے شادماں تھے اسے آج پا کے روئے

تری بے وفائیوں پر تری کج ادائیوں پر

کبھی سر جھکا کے روئے کبھی منہ چھپا کے روئے

جو سنائی انجمن میں شب غم کی آپ بیتی

کئی رو کے مسکرائے کئی مسکرا کے روئے

Leave a Reply