Pakistan peoples party aur majuda siasi o mashi sorat e hal

پاکستان پیپلز پارٹی اور موجودہ سیاسی و معاشی صورت حال




سیاست کے بازار میں کافی گہما گہمی نظر آتی ہے کوئی ایک پارٹی چھوڑ رہا ہے تو کوئی دوسری اور اس کے ساتھ سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے کسی ایسی جماعت میں شامل ہونے کا خواہشمند ہے جو آئندہ عام انتخابات میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو؟
اس سیاسی منظر نامہ سے یہ چیز ابھر کر سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر سیاستدان اپنی بقا کی خاطر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں انہیں ملک کی معیشت یا عام آدمی کے مسائل سے کوئی غرض نہیں جبکہ ان سب کو مل کر لوگوں کی فلاح و بہبود سے متعلق سوچ بچار کرنا چاہیے خصوصاً مسلم لیگ نون کو کیونکہ اس کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ پی پی پی بھی حکومت میں برابر کی شریک ہے لہٰذا اسے بھی جوڑ توڑ کے علاوہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہیں۔
خیر تمام سیاسی جماعتیں اِدھر اْدھر سے کھسکنے والی سیاسی شخصیات سے رابطے کر رہی ہیں اور انہیں مستقبل روشن ہونے کا یقین دلا رہی ہیں۔ آصف علی زرداری لاہور میں ڈیرے ڈال چکے ہیں ایک خبر کے مطابق جنوبی پنجاب کے چھبیس سیاسی رہنماؤں نے ان کے ساتھ چلنے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے اس سے لگتا ہے کہ پی پی پی پنجاب میں اپنے قدم مضبوطی سے جمانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جیسا کہ ایک دوست کا تجزیہ ہے کہ وہ لوگ جو کچھ عرصہ پہلے پی پی پی کی پالیسیوں کی وجہ سے اسے چھوڑ گئے تھے اب دوبارہ اس کی طرف جانا شروع ہو گئے ہیں جذباتی سیاست سے وہ تنگ آچکے ہیں پھر پی پی پی ایک سنجیدہ فہم لوگوں کی جماعت ہے یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ جس سی پیک کا آج چرچا ہے اسی جماعت نے ہی اس کا پروگرام بنایا تھا ایران سے گیس پائپ لائن بھی بچھانے کا آصف علی زرداری نے ہی منصوبہ بنایا تھا جو ایران نے اپنی حدود میں مکمل کر لیا تھا مگر ہم معروضی حالات کے پیش نظر ایسا نہیں کر سکے اب لگ رہا ہے یہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا کیونکہ اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے کہ کب تک ہم سسکتی معیشت کے ساتھ جئیں گے لہٰذا پی پی پی چاہتی ہے کہ وہ اس پوزیشن میں آجائے کہ ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے والے منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کر سکے لہٰذا اس نے قومی سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا
کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آصف علی زرداری خاصے متحرک ہیں وہ پنجاب کے بڑے شہروں کے الیکٹ ایبل سے بھی ہاتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ اس میں کامیاب ہو جائیں کیونکہ انہیں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کا فن خوب آتا ہے۔
بہرحال پی پی پی آنے والے دنوں میں ایک نئی طرح کی سیاسی جماعت بننے جا رہی ہے جو ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائے گی اسے یہ بھی سمجھ آ گئی ہے کہ عوام کو باتوں سے نہیں عملاً مطمئن کرنا ہو گا کہ انہیں حالات کی ستم ظریفی نے بہت پریشان کر دیا ہے ان کی معاشی حالت بے حد کمزور ہو چکی ہے مہنگائی، بے روزگاری اور نا انصافی کے ہاتھوں وہ بری طرح سے گھائل ہیں لہٰذا وہ اقتدار میں آکر لوگوں کو بڑے بڑے ریلیف دے گی جس سے ان کے دکھ درد بڑی حد تک کم ہو سکیں گے مگر اس وقت بھی وہ حکومتی پالیسیوں پر جہاں تک ممکن ہو سکے اثر انداز ہونا چاہیے۔ یہ جو بجلی کی قیمت میں ایک روپے ساٹھ پیسے اضافہ کیا گیا ہے اس سے غریب آدمی کی جان پے بن آئی ہے وہ تو پہلے ہی بجلی کی بچت کرنے کے باوجود بل ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اب اس پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے لہٰذا پی پی پی کی قیادت سیاست کاری ضرور کرے مگر ساتھ ساتھ عوامی مسائل کو کم کرنے کی طرف بھی توجہ دے اگرچہ حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی ہے جو بہت اچھی بات ہے یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے مگر اس موقع پر بجلی کی قیمت نہیں بڑھانی چاہیے تھی۔ چلئے حکومت نے اس کٹھن وقت میں کچھ سخت اور کچھ نرم فیصلے کر کے معیشت کی گاڑی کو بھی رواں رکھنا ہے مگر یہ طے ہے کہ اچھے دنوں کی چاپ بھی سنائی دے گی کیونکہ وقت ایک سا کبھی نہیں رہتا بدلتا ہے لہٰذا آج اگر ہمارے حالات خراب ہیں تلخ ہیں تو کل وہ ٹھیک بھی ہو جائیں گے شرط یہ ہے کہ نیت صاف ہو۔ عوامی سرمایے کا زیاں نہ ہو کرپشن پر قابو پا لیا جائے اگر ایسا نہیں ہوتا تو بے شک دولت کے انبار بھی لگ جائیں ان سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا لہٰذا ضروری ہے کہ 75 برس کے بعد ہم تمام کمیاں کوتاہیاں دور کرنے کی جانب بڑھیں عوام کو ساتھ ملائیں ان کے دل جیتیں انہیں مایوس نہ ہونے دیں جب سیاست ان کے دم سے ہے ملکی قرضے ان کے لیے لیے جاتے ہیں جنہیں وہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں بھی ادا کرتے ہیں تو پھر ان کی زندگیوں میں بہار بھی آنی چاہیے خزاں کی زردی دیکھ دیکھ کر ان کی بینائی بھی کمزور ہو گئی ہے لہٰذا ہمارے سیاستدانوں کو اپنی پارٹیاں ہی مضبوط نہیں بنانا لوگوں کو بھی توانا بنانا ہے بصورت دیگر وہ ان سے ناراض و مایوس ہو کر خود آگے آنے کی خواہش و کوشش کر سکتے ہیں اور تاریخ سے ثابت ہے کہ جب وہ آگے بڑھتے ہیں تو مضبوط اور بلند و بالا فصیلوں کے پیچھے موجود حکمران ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوتے ہیں لہٰذا عرض ہے کہ عوام کو چند بنیادی ریلیف دینے کا آغاز کیا جائے اور یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ ان کی لچھے دار تقریروں سے متاثر ہو کر ان کے پیچھے چل پڑیں گے کیونکہ ان کی سوچ کافی حد تک بدل چکی ہے اور وہ حکمرانوں کو گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں لہذا انہیں اس امر کا یقین دلایا جائے کہ وہ (حکمران) ہر صورت ان کو خوشحال بنائیں گے انصاف سستا و آسان دلوائیں گے رشوت کا خاتمہ کریں گے ان کی جان و مال کومقدم جانیں گے اور انہیں زندگی کی لازمی آسائشوں کو ممکن بنانے کی سعی کریں گے۔ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں اگر انہیں حکمت عملیوں اور چکر بازیوں سے اپنا بنانے کا سوچا گیا تو ایسا ہونا مشکل ہے مگر افسوس ہمارے بعض سیاستدان عوام کی خدمت کو ضروری نہیں سمجھتے بس وہ لوگوں کو حرکت میں دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ وہ زمانہ لد گیا اب فکر معاش کے ستائے ہوئے لوگ جدوجہد کی شاہراہ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لہٰذا اشیائے ضروریہ سے لے کر تعلیم صحت اور انصاف تک کو ممکن بنایا جائے یہ اسی صورت ہو سکتا ہے جب تمام سیاسی جماعتیں مل کر کوشش کریں گی کیونکہ ایک جماعت اب اس گھمبیرتا کو درست کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی ہاں مگر جس طرح آصف علی زرداری سیاسی میدان کے بہترین کھلاڑی ہیں اگر وہ معیشت کے میدان میں بھی اپنا جوہر دکھائیں تو پھر پی پی پی تنہا بھی ایک معاشی انقلاب برپا کر سکتی ہے مگر کہتے ہیں اتفاق میں برکت ہے لہٰذا اسے اپنی اتحادی بڑی جماعت مسلم لیگ نون کے ہمراہ بھی معاشی استحکام لانے کے لئے کوئی منصوبہ بندی کرنی چاہیے یا ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ نون اگر کوئی معیشت کی بہتری کے حوالے سے کوئی پروگرام رکھتی ہے تو وہ پی پی پی کے ساھ مل کر عوام کی حالت بدل سکتی ہے اور اس میں دیر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ لوگ تنگدستی کی آخری حد کو چھو رہے ہیں۔

Leave a Reply