Saneha 9 May ko siasi rung na dia jaye

سانحہ 9 مئی کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے




بلاشبہ سانحہ 9 مئی کو یقینی طور پر پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ بلاشبہ جس طرح ہماری پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دن رات محنت کر کے ذمہ دار لوگوں کا تعین کیا اور اس واقعہ میں ملوث افراد کو شناخت کر کے ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا وہ انتہائی قابل تعریف ہے۔
جب بات ہو قانون کی عملداری کی تو اس سلسلہ میں ایک بنیادی فارمولہ ہی لاگو ہوتاہے کہ اگر آپ نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے یا کسی بھی طور آپ سے سرزد ہو گیا ہے تو آپ اس بنیاد پر کوئی رعائت طلب نہیں کر سکتے کہ آپ کو تو قانون کا علم ہی نہیں تھا۔ ٹھیک اسی طرح جو لوگ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر آ کر یا عدلیہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی آڑ میں کور کمانڈر ہاوس اور جی ایچ کیو پر حملہ میں ملوث افراد کے ایما پر توضیحات پیش کر رہے ہیں یا خاتون یا طالبعلم ہونے کی بنیاد پر رعاتیں مانگ رہے ہیں ان کو واضح الفاظ میں بتا دیا جانا چاہیے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور یہ اپنا راستہ خود طے کرے گا۔ جہاں اطمنان کی بات یہ ہے کہ سانحہ 9 مئی کو ہونے والی ہلڑ بازی کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے بہت تیز اور مضبوط طریقے سے ایکشن لیا جا رہا ہے وہیں برادر حامد میر سے منسوب ایک بیان نے تھوڑی سی کنفیوژن بھی پیدا کر دی ہے۔
میر صاحب کے بیان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا مقدمہ بھی فوجی عدالت کو بھیجا جا نے کا بھر پور امکان ہے اور چونکہ ان کے خلاف ناقابل تردید ثبوتوں اور وعدہ معاف گواہوں کی ایک اچھی خاصی معقول تعداد موجود ہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ انہیں سزا بھی ہو جائے گی۔ بلا شبہ قانون نافذ کرنے والوں کے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ سانحہ 9 مئی کی تمام تر کاروائیوں کی منصوبہ بندی میں عمران خان شامل تھے،
لیکن اس کے باوجود میرا حکومت کو مشورہ ہو گا کہ، ایک سیاسی حکمت عملی کے تحت ہی سہی، عمران خان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہ چلایا جائے۔
عمران خان ایک عرصہ سے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں اور وقتاً فوقتاً سنگین قسم کے الزامات بھی لگاتے رہتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ لگاتے ہوئے کہ ان کا مقدمہ فوجی عدالت کو بھیجا جا سکتا ہے اور ان کے خلاف دستیاب ثبوتوں اور گواہان کی بنیاد پر انہیں سزا ہو جانا بھی یقینی ہے خان صاحب نے حفظ ماتقدم کے طور پر بین الاقومی میڈیا کو انٹرویو دینے کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقومی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی آوازیں دینے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ بظاہر منصوبہ تو یہ نظر آتا ہے کہ اگر موجودہ حالات میں اگر تمام تر قانونی تقاضے پورے کرنے کے باوجود بھی کسی فوجی عدالت سے عمران خان کو سزا سنا دی جاتی ہے تو اس پر سو طرح کے سوالات اور اعتراضات کھڑے کر دیے جائیں گے اور صورتحال کو سیاسی استحصال کا رنگ دینے کی کوشش کی جائے گی۔ پروپیگنڈا کرنے کی بھرپور صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے ایک بات تو یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ خان صاحب اس قسم کی کاروائی انتہائی کامیابی سے کر لیں گے۔ اور اگر ایسا ہوا تو نا صرف عمران خان کا کیس بلکہ اس سلسلہ میں چلنے والے تمام ہی کیسز بہت بری طرح متاثر ہو جائیں گے۔
مذکورہ بالا صورتحال کے برعکس اگر عمران خان کا مقدمہ سول عدالت میں چلایا جائے تو بھی اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ وافر ثبوتوں اور مضبوط گواہوں کی موجودگی میں انہیں سزا ہو ہی جائے گی۔ اس صورت میں وہ اپنا روائتی واہ ویلا تو خیر کریں گے ہی لیکن شائد اس کی شدت اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اس لیول کی نہ ہو۔
ماضی میں ہم نے دیکھا کہ وزارت عظمیٰ کے دوران عمران خان صاحب اور ان کی سیاسی پارٹی مقبولیت کی انتہائی نچلی سطح پر چلی گئی تھی لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنے خلاف کامیاب ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا اور ایسا پراپیگینڈہ کیا کہ جس کی بنیاد پر وہ انتہائی کامیابی سے عوامی ہمدردی سمیٹنے میں کامیاب ہو گئے۔ غرض کسی بھی قسم تنازعہ یا مباحثہ میں پڑے بغیر حکومت کی ترجیح قانون شکنوں کو سزا دلوانا ہونی چاہیے، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کہ مقدمہ کس عدالت میں چلے۔
عمران خان کی اس صلاحیت کو تو ماننا پڑے کہ کہ وہ چیزوں کو اپنی منشا اور ضرورت کے مطابق توڑنے اور موڑنے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے انتہائی کامیابی سے ایسا کر کے بھی دکھایا ہے لیکن سوال ہے کہ کیا ان کی اس صلاحیت سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو خوفزدہ ہو کر اپنا ایکشن روک دینا چاہیے؟ یا کسی بھی صورتحال کی پرواہ کیے بغیر معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے، یا پھر سوچ، سمجھ، منصوبہ بندی، حکمت، تدبر، فہم اور فراست کو بروے کار لاتے ہوئے ایک ایسی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے کہ مجرم بھی اپنے انجام کو پہنچے اور اس کا جھوٹا پراپیگیینڈہ بھی ناکامی کا شکار ہو۔
میری ذاتی رائے میں تو تیسری آپشن ہی بہترین ہے کیونکہ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس وقت کی حکومتوں کی جانب سے اندھا دھند اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے پاکستان پیپلزپارٹی یا پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور ان پارٹیوں کی قیادت (اگرچہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کا کیس یکسر مختلف ہے) کو ناک آوٹ کرنے کی تمام تر کوششوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عوام سب مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ سانحہ 9 مئی کو کسی بھی طور سیاسی رنگ نہ دیا جا سکے، اگر خدا نخواستہ ایسا ہو گیا تو یہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی نہیں بلکہ پاکستانی قومی کی ناکامی ہو گی۔

Leave a Reply