Bichari taleem ki kusamparsi

بیچاری تعلیم کی کسمپرسی




حکومتیں آتی اور جاتی رہیں‘ پالیسیاں بنتی رہیں اور جہاں پر ضروری سمجھا گیا عملدرآمد بھی ہوتا رہا مگر درمیان میں بیچاری تعلیم اوجھل رہی ‘ ماناکہ تعلیمی پالیسیاں بھی آئیں مگر عمل درآمد نہ ہو سکا نتیجتاً تعلیم روبہ زوال ہو کر بالآخر وہاں پر پہنچ گئی جہاں سے اس بیچاری لولی لنگڑی کی واپسی یقیناً دشوار ہو گی۔ کہتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی جامعات انرجی خلائی تحقیق اور اقتصادیات کے شعبوں کیلئے اپنے ملک کے پالیسی ساز ادارے ہیں ۔بالکل درست کہا ہے مگر غور طلب امر یہ ہے کہ آیا وہاں پر بھی ایک کی بجائے چار پانچ نظام ہائے تعلیم رائج ہیں؟ آیا وہاں پر بھی پاکستان کی تقریباً200 جامعات کے برابر محض64ارب روپے سالانہ بجٹ مختص کیا جاتا ہے ؟ یا ان میں سے بعض یونیورسٹوں کے سالانہ اخراجات کا بجٹ پاکستان کے قومی بجٹ کے اگر برابر نہ ہو تو کچھ زیادہ کم بھی نہیں ہو گا ہر حکومت تعلیمی ایمر جنسی کا نام لیکر تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کرکے اس بیچاری کے پر کاٹ دیتی ہے ۔حکومت نے گزشتہ سال اپنے بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں اورپنشن میں15 فیصد اضافے کااعلان کیا مگر حالت یہ ہے کہ جامعات کو گرانٹ کی مد میں کوئی ٹکہ پیسہ نہی دیا گیا اور یوں ایک سال گزرنے کے باوجود وہ اضافہ بقایاجات کی شکل میں یونیورسٹیوں کے ذمے واجب الادا ہے اب دوسرا بجٹ بھی آ پہنچا جس کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا تو خیر قبل از وقت ہو گا البتہ یہ بات قدرے غور طلب ہے کہ حکومت ملازمین کی تنخواہوں میں بے تحاشا مہنگائی کے پیش نظر ایڈہاک ریلیف کے طور پر گزشتہ بجٹ سے کچھ زیادہ اضافے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ ہماری خواہش ہے کہ ایسا ہی ہو مگر اس میں یہ اعلان اور وضاحت بھی ضروری ہو گی کہ یہ اضافہ جامعات کےلئے نہیں ہے کیونکہ وہ خود مختار ادارے ہیں لہٰذا اپنا بندوبست خود کریں گے ۔ اب یہاں پر یہ امر نہایت باعث حیرت لگتا ہے کہ آیا18 ویں ترمیم کے بعدبھی یونیورسٹیوں کو خود مختار اداروں کی حیثیت حاصل ہے ؟ یہ خود مختاری تو ایک عرصہ تک محض اس حد تک برقرار تھی کہ عیدین پر حکومتی اعلان کے برعکس یونیورسٹیاں اپنی مرضی کی چھٹیاں کر سکتی تھیں مگر اب گزشتہ سال سے وہ خود مختاری تقریباً معدوم ہوتی نظر آ رہی ہے ملک کی قدیم درسگاہ جامعہ پشاور کے ملازمین جب 7 مارچ سے تالے لگا کر سڑک پر نکلے اور بات18اپریل تک تالہ بندی کی شکل اختیار کر گئی۔ ریلیوں ‘دھرنوں اور جوشیلی تقاریر کا سلسلہ جاری رہا تو اس دوران بھی راقم کا تبصرہ تھا کہ ملازمین کے جن مسائل اور مطالبات کے حل اور پورا ہونے کاتعلق پیسے سے ہو وہ پورے نہیں ہوں گے کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ کا رونا ہے کہ حالت ایک بار پھر گھمبیر ہو چکی ہے اور المیہ ہے کہ آئندہ مہینے سے یونیورسٹی کے پاس پوری تنخواہیں نہیں ہوں گی بلکہ مستقبل قریب میں تو بیسک پے کی ادائیگی بھی یقینی نہیں ہو گی۔ دوسری جانب یونیورسٹی ملازمین جامعہ کی انتظامیہ کی یہ فریاد مگر مچھ کے آنسو قرار دے کر یکسر مسترد کرتی ہے ملازمین کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کے ایک نہیں بلکہ متعدد بینک اکاﺅنٹس میں کافی پیسے پڑے ہیں اب کہنے کی بات یہ ہے کہ اس معاملے کی چھان بین ناگزیر ہو گی کہ انتظامیہ کا رونا بجا ہے یا ملازمین حق بجانب ہیں؟ غالباً انتظامیہ میں سے کسی نے یہ سوچا تھا کہ تعلیمی بجٹ تو برائے نام ہے اور مہنگائی کی رفتار ٹلتی نہیں یعنی اخراجات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں لہٰذا بہتر یہ ہو گا کہ ملازمین مشترکہ طور پر قدرے قربانی دے کر جامعہ کو دیوالیہ ہونے بچائیں مطلب تنخواہوں کے علاوہ جو مراعات یا الاﺅنسز لئے جاتے ہیں ان میں سے اگر پانچ دس فیصد کی قربانی دی جائے تو ممکن ہے کہ یونیورسٹی مالی بحران سے بچ سکے مگر ملازمین نے اس سوچ سے اتفاق نہیں کیا بلکہ کام کاج کو خیر باد کہہ کر سڑک پر بیٹھ گئے۔ اب حالت یہ ہے کہ انتظامیہ کے مطابق ملازمین اور انتظامیہ کے معاہدے پر عملدرآمد کے لئے پیسہ چاہئے جو کہ دور سے بھی دکھائی نہیں دے رہا ۔ ملازمین انتظامیہ کا یہ موقف بھی حسب روایت مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وائس چانسلر نے تو یونیورسٹی کو مالی مشکلات سے نکال کر اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کا دعویٰ کیا تھا تو پھر اچانک دیوالیہ کیسے ہو گئی؟

Leave a Reply