Charwaha janta hai

چرواہا جا نتا ہے 




گرم خبر یہ ہے کہ گلگت چترال روڈ پر شندور کے اندر 120سال پرانی سر کاری سڑک کو چھوڑ کرنئے سرے سے سڑک بنا نے کے لئے مختلف علاقے کا انتخاب کیا ہے جس میں کروڑوں روپے کا معا وضہ دلوا کر زمینوں کو خریدا جائیگا۔ مقا می لو گوں کا کہنا ہے کہ ہمارے آباو اجداد کے زمانے سے لشکروں ، سوداگروں اور سیا حوں کا راستہ دائیں طرف سے گزر تا آیا ہے 120سال پہلے برٹش سرکار نے سڑک بنا ئی تو کاروانوں کے اسی راستے پر اپنی سڑک بنا ئی۔ ٹیلیفون کے کھمبے اسی جگہ نصب کئے کیونکہ یہ محفوظ جگہ تھی لیکن آج نئی سڑک معلوم نہیں کس نقطہ نظر سے بنائی جا رہی ہے کہ اس میں ان عوامل کو مد نظر نہیں رکھا گیا جو عام طور پر ایک سڑک کے بنانے میں ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔یہ 2001بات ہے جب ہمارے گروپ نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور 1886میں بنے ہوئے ریلوے ٹریک کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ برٹش حکومت کے آفیسروں نے 1878میں ریلوے ٹریک پر کا م شروع کیا تھا۔ چار سا لوں تک ان کے سارے نقشے نا کا م ہو تے رہے۔ چٹانوں کو چیر نا اور پہا ڑوں پر اونچے پلوں کی مدد سے ریل کی پٹڑی بچھا نا ممکن ہو تا ہوا دکھا ئی نہیں دیا۔ اس اثنا ءمیں بکریاں چرا نے والے خانہ بدوش چرواہوں کو انہوں نے آتے جا تے دیکھا تو انگریزوں نے ان چرواہوں کو بلا کر ان سے معلومات حا صل کرنے کا فیصلہ کیا ۔چنانچہ چرواہوں کو بلا یا گیا اور ان کے سامنے ریل کی پٹڑی کا منصو بہ رکھا گیا ۔چرواہوں نے کہا ان صحراوں اور پہا ڑوں میں کئی پگڈنڈیاں ہیں جو مہینے کا سفر دو دنوں میں طے کر نے کےلئے استعمال ہو تی ہیں ۔انگریزوں نے کہا ہمیں پگڈنڈیاں دکھا ﺅ ۔چرواہوں نے کئی دن لگا کر ساری پگڈنڈیاں ان کو دکھا ئیں۔ انگریزوں نے پو چھا اگر تم سے کہا جا ئے کہ ان پگڈنڈیوں سے ہزار گز لمبے ریل کو لو ہے کی پٹڑی پر چلا کر دکھاﺅ تو تم کیا کرو گے ؟ چرواہوں نے کہا ہم خر گوش اور چو ہے کی مدد سے پٹڑی بچھا ئینگے ۔انگریزوں نے پو چھا وہ کیسے ؟ چرواہوں نے کہا جہا ں بلندی پر چڑھنا ہو وہاں خر گوش کی طرح اچھلنے کے لئے پل بنائینگے ۔جہاں بلندی پر چڑھنا ممکن نہ ہو وہاں چو ہے کی طرح چٹان کو کا ٹ کر سرنگ بنائینگے ‘یوں انہی پگڈنڈیوں سے ریل کی پٹڑی گزرے گی۔ انگریزوں نے ایک چرواہے کو کنسلٹنٹ رکھ لیا اور چار سالوں میں ریل کی پٹڑی ہر نا ئی سے ہوتی ہوئی افغا ن سرحد تک پہنچ گئی ۔آج بھی وہی پٹڑی مو جو د ہے اور ٹھیک ٹھا ک کام دیتی ہے۔ یہ مقامی دانش اور مقا می علم کا کمال ہے جسے یورپ اور امریکہ سے چین ، جا پا ن یا کوریا تک سب نے تسلیم کیا ہے پا کستان میں سڑک بنا نےوالا محکمہ مقا می لو گوں کی رائے کو مد نظر رکھے تو سڑک بنانے پر بے جا اخراجات سے بچا جاسکتا ہے اور قیمتی زرعی اور رہائشی زمینوں کا ضیاعءبھی نہیں ہوگا۔ ویسے پرانی سڑک کے ساتھ جو سہولیات اور آسانیاں طویل عرصے میں میسر آئی ہیں وہ نئے سڑک کے ساتھ ممکن نہیںہی نہیں۔

Leave a Reply