Khush kismati ya bad kismati

خوشی قسمتی یا بدقسمتی




خوش قسمتی او ر بدقسمتی کا عقل و شعور اور علم ودانش سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ کیوں؟ داناشخص بد قسمت اور نادان شخص خوش قسمت ہو سکتاہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا’’اللہ سے جب بھی مانگو نصیب مانگو۔ میںنے بہت سارے عقلمند وںکونصیب والوںکے آگے جھکتے دیکھا ہے‘‘ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اکثر ان پڑ ھ اور گنوار سیٹھوں کے پاس،بڑے بڑے پیشہ ور اور قابل لوگ ملازمت کرتے نظر آتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کامیاب شخص اپنی کامیابی کو خوش بختی سمجھنے کی بجائے اسے اپنی عقل ، تعلیم ،تجربے اور محنت پر مہمو ل کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میںایک ناکام شخص اپنی ہر ناکامی کو بدقسمتی سمجھتاہے اور کوئی غلطی اور تساہل اپنے سر لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ جو کہتے ہیں ہر کامیاب آدمی کے پیچھے ایک عورت اور ناکام کے پیچھے کئی عورتیںہوتی ہیں اپنی جگہ درست سہی لیکن اس کے برعکس اکثر گھرانوںمیں یہ بہت پرانی کہاوت آج بھی صحیح سمجھی جاتی ہے کہ شادی کے بعد رزق عورت اور اولاد مرد کی قسمت کی ہوتی ہے۔دوسری طرف اپنے ہاتھوں اپنی اولادکی زندگیاںتباہ وبرباد کرنے والے والدین خود کو نہیں،ہمیشہ بچوں کو ہی موردِ الزام ٹھہراتے ہیں ۔ روزگارکا نہ ہونا ، جوان بچیوں کا وقت پر بیاہ نہ ہونا ، شادی کے بعد اولاد کا نہ ہونا ، بچوں کی ذہنی یا جسمانی استعدادکا تناسب کم ہونا اور طرح طرح کی بے چینیوں اور بے قراریوں کو قسمت کی مار سمجھا جائے یا آدمی کا قصور؟جب آدمی کی سمجھ آدمی کی خواہشات کے تابع ہوجائے تو وہ سمجھ ہی نہیںرہتی بلکہ جذبات اوراحساسات کا ایک بے قابو ہجوم بن جاتی ہے۔ ایسی صورت میںآدمی ہر بات کو عقل ودانش کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے خوش قسمتی اور بد قسمتی کے پیمانوںسے ماپنا شروع کردیتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کی جس کامیابی کے پیچھے عقل ، شعور اور محنت ومشقت کاکوئی عمل دخل نہ ہووہ کامیابی خوش قسمتی کہلائے گی ۔ جیسے بیٹھے بیٹھے کسی کی لاٹری نکل آئے اور وہ غریب سے امیر ہوجائے یا کوئی بغیرکسی تردد کے کسی بڑے منصب پرفائز ہوجائے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لاٹری پیسوںکی تو نکل سکتی ہے علم ودانش ، عقل وفہم جرأت اوربہادری، پاکیزگی اور طہارت ، امانت ودیانت اورایثار خلوص اور قربانی کی نہیں۔ آدمی اچانک امیر تو ہوسکتاہے، عزت دار اور قابل احترام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں کوشش کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اعلان خداوندی ہے کہ آدمی کو اُتنا کچھ ہی ملے گا جتنے کے لئے آدمی کوشش کریگا۔ غالباً اسی لئے مسلمان کو سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت کی گئی ہے، منزل پر پہنچنے کی نہیں۔ کیوں؟ اسلئے کہ سیدھے راستے پرآدمی عمر کے آخری حصے میںبھی چڑھ سکتاہے۔ ایسا صرف توفیق الٰہی سے ہی ممکن ہے جسے عرف عام میں توکل کہا جاتاہے ۔ توکل کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ آدمی کچھ نہ کرے اوربس توکل کئے بیٹھارہے ۔ توکّل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا پھر انجام اُس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر چوراہے پر کھڑے ہوکرمنزل پرپہنچنے کے لئے کسی غلط راستے پر مڑجانے کاانتخاب اُسے منزل سے دور ہی کریگا۔ نزدیک ہر گز نہیں۔ جو دودھ پیتا بچہ کسی بھکارن کے کندھے پر دیہاڑی دار بن کر گھر کی کمائی کاذریعہ بن جائے، وہ بدقسمت ہی کہلائے گا اور سونے کا چمچہ منہ میںلے کر پید ا ہونے والا بچہ خوش قسمت ۔ پھر اُسے کیا کہیں گے جو پیدا تو کروڑ پتی ہوا لیکن مرا ایک غریب لاچار اوربے بس کی طرح اور جو پیدا کسی بھکاری کے گھر میںہوا اورمرا دولت کے ڈھیر لگا کر ۔کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل نے ایک مرتبہ حضرت عزرائیل سے پوچھا کہ تم شروع سے آدمیوں کی جان لینے پر مامور ہو، کبھی تمہیں کسی کی جان لیتے ہوئے ترس بھی آیا ؟ عزرائیل نے بتایا ’’ دودفعہ مجھے ترس آیا۔ ایک دفعہ اُس وقت جب میں نے ایک عورت کی اُس وقت جان لی جب وہ اور اس کا نوزائیدہ بچہ ایک لکٹری کے تختے کے سہارے دریا میںڈوبنے سے بچنے کی کوشش کررہے تھے اور مجھے حکم ہوا کہ اسکی جان لے لوں۔ مجھے بچے کی حالت پر ترس آیا۔ دوسری دفعہ مجھے ترس اُس وقت آیا جب شداد نے اتنی چائو محبت لگن اور شوق سے اپنے تئیں زمین پر جنت بنائی اور وہ اس کے اندر قدم رکھ رہا تھا تو مجھے حکم ہوا کہ اُس کی جان لے لوں ۔ جبرائیل نے مصلحت ایزدی سے آگاہ کرکے عزرائیل کو پریشان اور حیران کردیا جب اُسے بتایا گیا کہ جس شداد پر اُسے ترس آیا وہ وہی بچہ تھا جس کی ماں کی جان لینے پر بھی اُسے پہلے ترس آیا تھا۔ اسے کہتے ہیں ’’ رب دیاں رب ہی جانے‘‘۔ زندگی بھر آدمی غم واندوہ ، خوشی اور شادمانی ، انتھک کوشش اور جدوجہد ، طرح طرح کی وقتی اور دیرپا کامیابیوں اور ناکامیوں، نجاستوں اور طہارتوں دیگر انگنت قسم کے مسائل، مشکلات اور مصائب میں گھرا رہتاہے ۔ سیدھے راستے پر پہلے چڑھنے اور پھر چلنے کے دوران اللہ مسلمان کو خوف اور رنج کی آزمائشیوں سے گذراتاہے۔ اسی لئے ایک سوال کے جواب میںحضرت علی ؑ فرمایا ’’ جو مصیبت تمہیں اللہ سے دُور کردے وہ سزا ہے اورجو اللہ سے قریب کردے وہ آزمائش ہے‘‘ جب آدمی مسلمان ہوتے ہوئے خدا اور رسول کی فکر سے آزاد ہوجائے تو پھر گلہ کس بات کا ؟ گلہ تو اسی وقت تک رہتا ہے جب تک تعلق قائم رہے۔ میل ملاپ جاری رہے ، ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے ۔ وعدے وعید نبھائے جائیں ، غمی اور خوشی میں ساتھ ساتھ رہیں ۔ بیوی بچوں اور والدین کا اپنی اپنی جگہ خیال کیوں رکھا جاتا ہے؟ اس طرح دیگر عزیر اقارب کا خیال کیوں رکھا جاتاہے ؟ اس لئے کہ یہی رشتے دکھ درد میںکام آتے ہیں ۔ راہ چلتے لوگ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صلہ رحمی کو بہترین اور قطع رحمی کو بد ترین عمل سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہی حال دوستی یاری کا بھی ہے ۔ حضرت علی ؓفرماتے ہیں ’’غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہا ہو‘‘ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم صرف دولت کی ریل پیل ، جائیدادوں کی ملکیت ، پیشہ وارنہ درجات اور مراتب اور ظاہری خوشحالی کو ہی خوش قسمتی سمجھ کر بھو ل جاتے ہیں کہ غم سے آزادی صرف خدا کو یاد رکھنے میں پوشیدہ ہے۔ مسلمان دن میںپانچ مرتبہ جو گواہیا ں دیتا ہے ۔ انہی گواہیوں پر قائم رہنا ایک مومن کا اصل مطلوب ومقصو د ہوتا ہے۔ اس کا تعلق کسی کی خوش قسمتی یا بدقسمتی سے نہیں ہے۔ شہادت ، یعنی گواہی کا مطلب چاہے جنگ ہو یا امن، گھر ہو یا باہر ، اپنی ہر بات ، ہرفیصلے اور ہر موڑ پر جان ومال کی پروا کئے بغیر اللہ کی رضا کو مقدم رکھنا ہوتاہے۔ اس لحاظ سے خوش قسمت وہی ہے جو رضائے الٰہی کا تابع ہے اور بدقسمت وہ ہے جو لوگوں کی رضا اور خوشنودی چاہتا ہے۔ کیوں؟ اسلئے کہ یہ نغمہ فصل گل ولالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ خدا ہمارا حامی وناصر ہو ۔

Leave a Reply