Video leaks ka siasi istmal

ویڈیو لیکس کا سیاسی استعمال




پچھلے چند برسوں سے پاکستان آڈیو‘ ویڈیو لیکس کی بلیک میلنگ اور سنسنی خیزی کا شکار ہے۔ دنیا بھر کے حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کی گفتگو کو ریکارڈ کرنا سال ہا سال سے چلا آ رہا ہے۔ مگر اس طرح کی ریکارڈنگ اور وہ بھی ویڈیو ریکارڈنگ لوگوں کے بیڈ رومز اور میاں بیوی کی مباشرت کی ریکارڈنگ تک چلی جائے گی اور معاشرہ اخلاقی گراوٹ کی اس بدترین کھائی میں جا گرے گا اس کا اندازہ لگانا ناممکنات میں سے تھا۔ سیاست دانوں‘ ججوں‘ بیوروکریٹس اور معاشرے کے بااختیار افراد کو اس طرح کی ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کر کے اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق فیصلے کروانے کا رواج پاکستان کیا کسی بھی مہذب معاشرے میں نہیں تھا۔ بھارت اور پاکستان میں جرائم پیشہ افراد لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان کی برہنہ یا جنسی ویڈیو بنا کر بلیک میلنگ کا کام کرتے تھے۔ بھتہ وصول کرتے تھے اور اس طرح کی ویڈیو لیکس کے خوف سے بہت سی لڑکیاں خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتی تھیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ان آڈیو اور ویڈیوکا پروڈیوسر کون ہے اور کس اختیار اور قانون کے تحت یہ مجرمانہ خفیہ ریکارڈنگ کی جاتی ہے۔ پہلی بار اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ وہ کون ہے جو ریکارڈنگ کرتا یا کرواتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اس طرح کی خفیہ ریکارڈنگ کسی بھی شخص کی پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے اور اس کے ذریعے بلیک میلنگ ایک مجرمانہ فعل ہے۔ ایک مجرمانہ دھمکی ہے جو کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچا کر اپنے مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرنے کے زمرے میں آتی ہے، جس کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔ اسی طرح انٹرنیشنل انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی قوانین کے تحت کسی بھی فرد کی رضامندی کے بغیر ویڈیو بنانے یا آڈیو ریکارڈنگ کرنے پر مقدمہ درج کروایا جا سکتا ہے۔ نیوزی لینڈ کے پرائم منسٹر Bill English کو 2017ء کے انتخابات سے چند ماہ قبل بہت بڑے سیاسی سکینڈل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کے قریبی ساتھی رکن پارلیمنٹ ٹوڈی بارکلے کو ان الزامات کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا تھا کہ اس نے اپنے ایک سٹاف ممبر کی غیرقانونی خفیہ آڈیو ریکارڈنگ کی تھی۔ اس سکینڈل کی وجہ سے بل انگلش کی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اکثریت کھونے کی وجہ سے وہ حکومت نہیں بنا سکے‘ بل انگلش کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا اوربالآخر چند ماہ بعد اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑی۔ اس سکینڈل کے بعد عوام ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر ویڈیو ریکارڈنگ کی شدت میں 2016ء کے پانامہ پیپرز کے بعد اضافہ ہوا۔ تین اپریل 2016ء کو انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس ICIJ نے 11.5 ملین خفیہ دستاویزات کوبرسرعام کیا جو بعد میں پانامہ پیپرز کے نام سے مشہور ہوئیں۔ 15اگست 2016ء کے دی نیویارک ٹائمز کے مطابق جان ڈوئی نے یہ دستاویزات جرمن صحافی بیسٹین اوبرمائر کو لیک کیں اور پہلی بار جرمنی کے اخبار Suddeutsche Zeitung میں شائع ہوئیں۔ یہ دستاویزات پانامہ کی قانونی فرم Mossack Fonseca سے حاصل کی گئی تھیں جن میں دیگر کئی ممالک کی اہم شخصیات کے ساتھ ساتھ ان آٹھ آف شور کمپنیوں کی تفصیلات بھی شامل تھیں جن کا تعلق پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بھائی شہبازشریف، جو اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب تھے، اوران کے خاندانوں سے تھا۔ ستر ممالک سے ان پانامہ پیپرز کی 11.5 ملین دستاویزات کو حاصل کرنے میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا اور دنیا بھر کی ایک سو سے زیادہ میڈیا تنظیموں نے نہایت خاموشی سے اس پر کام کیا۔ پاکستان سے آئی سی آئی جے کے ممبر عمر چیمہ تھے جنہوں نے اس کام میں اپنا حصہ ڈالا۔ ان پیپرز میں اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون‘ آئس لینڈ کے وزیراعظم سکینڈور جنہوں نے فوراً استعفیٰ دے دیا،ان کے علاوہ یو اے ای کے خلیفہ بن زیدالنیہان‘ یوکرین کے صدر پیٹرو پورو شینکو‘ سعودی عرب کے بادشاہ سلمان‘ ارجنٹائن کے صدر موری سیو‘ قطر کے امیر حماد بن خلیفہ الثانی‘ جارجیا کے پرائم منسٹر بڈینیا‘ عراق کے سابق وزیراعظم ایاز ملادی‘ مالدووا کے وزیراعظم جون سڑذا‘ اردن کے وزیراعظم علی ابوالرقیب کے علاوہ لیک ہونے والی فائلوں میں وزرائے اعظم‘ صدور اور بادشاہوں کے خاندانوں کے 61 افراد اور ساتھیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں چین کے ژی کے برادران لا‘ ملیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق‘ پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کی اولاد، بھائی اور رشتے دار‘ آذربائیجان کے صدر الہام ملادی کی اولاد‘ سائوتھ افریقہ کے صدر جیکب زوما‘ ازبکستان کے صدر نور سلطان کا پوتا، مراکش کے بادشاہ کا سیکرٹری‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری کوفی عنان کا بیٹا‘ برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کا بیٹا‘ سپین کی رائل فیملی کے علاوہ کم از کم چالیس سے زائد ممالک کے سینئر سرکاری اہلکار اور ان کے قریبی رشتے دار اور ساتھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 1983ء میں برطانیہ کی سب سے بڑی برکن میٹ ڈکیتی جس میں چوری ہونے والے سونے کی فروخت سے 10 ملین پائونڈز سے زیادہ کی منی لانڈرنگ بھی شامل ہے۔ پانامہ پیپرز اپنے انکشافات کی نوعیت کے لحاظ سے سب سے بڑی دھماکہ خیز لیک ہے اور ڈیٹا جرنلزم کی تاریخ کی سب سے بڑی لیک ہے۔ پانامہ لیک اور عمر چیمہ کی 5 اپریل 2016ء کی سنٹر فار انویسٹی گیٹو رپورٹنگ ان پاکستان میں چھپی ہوئی رپورٹ کے مطابق مریم نواز دو کمپنیوں کی خفیہ بینیفیشری مالک تھیں جو 1993-94ء میں قائم کی گئی تھیں۔ وہ ایک کمپنی میں شیئر ہولڈر ہیں جو ان کی اور حسین نواز کی مشترکہ ملکیت ہے۔ حسن نواز ایک اور آف شور کمپنی کے واحد مالک ہیں۔ یہ کمپنیاں 2007-08ء میں لندن میں چھ جائیدادوں کی خریداری کے لیے استعمال کی گئیں۔ Nescoll Ltd‘ Nielson Ltd‘ Hangon Property Holdings اور Coomber Grouping یہ چار کمپنیاں مریم‘ حسین اور حسن کی ملکیت ہیں۔ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی ملکیت 12 جون 2012ء تک تو خفیہ رہی مگر کمپنیوں کے سروس ڈیپارٹمنٹکو BVI کی فنانشل انویسٹی گیشن اتھارٹی کی انکوائری کا جب جواب دینا پڑا تو حقیقی مالک یعنی Real Benificial Owner مریم نواز نکلیں اور فنڈنگ کا ذریعہ خاندانی کاروبار بتایا گیا۔ پانامہ پیپرز کیس‘ سرکاری طور پر عمران خان بمقابلہ نوازشریف سپریم کورٹ آف پاکستان ایک تاریخی فیصلہ تھا جس نے نوازشریف کو تاحیات عوامی عہدہ رکھنے سے نااہل قرار دیدیا اور دس سال کی قید جبکہ مریم کو سات سال کی قید سنائی گئی۔ 2016ء میں ہی جب پانامہ پیپرز لیک ہوئے تو تب ہی یہ بھانپ لیا گیا تھا کہ یہ کیس عدالتوں میں چلے گا۔ چنانچہ آڈیوز ویڈیوز تیار کی جانے لگیں جو وقت آنے پر بلیک میلنگ کے لیے لیک کی جا سکیں۔ چونکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے چنانچہ دوستیاں پیدا ہوئیں۔ نوازشریف کو باہر بھیج دیا گیا۔ آڈیو ویڈیوز پروڈکشن نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ پاکستان کا ہر وہ شخص اور ادارہ جو بھی راہ میں رکاوٹ ہے یا ہوسکتا ہے و ہ ان آڈیو ویڈیو لیکس کی زد میں ہے اور عورتیں‘ بچے‘ بوڑھے کوئی بھی نہ تو جسمانی طور پر اور نہ ہی اخلاقی طور پر محفوظ ہیں۔ شاید عدالتیں اس کا کوئی حل نکال سکیں۔

Leave a Reply