Cheen say sikhna

چین سے سیکھنا




یادش بخیر راقم الحروف کو قریب تین سال قبل دارالحکومت ’بیجنگ‘ کے گریٹ پیپلز ہال میں منعقدہ خصوصی تقریب میں صدر ’شی جن پنگ‘ نے چین کے بڑے اعزاز ”بین الاقوامی سائنس و ٹیکنالوجی تعاون ایوارڈ“ سے نوازا تھا۔ اِس موقع پر صدر جن پنگ نے نوے منٹ سے زیادہ طویل تقریر میں تعلیم‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے شعبوں سے متعلق چین کی حکمت عملیوں کا ذکر کیا جو چین کی بے مثال تبدیلی کے اہم ستون ہیں۔ انہوں نے تفصیل سے ذکر کیا کہ کس طرح چین نے صنعتی ترقی اور جدت اختیار کرنے کے ذریعے اپنی معیشت کو تعلیم و ترقی کی طرف منتقل کیا۔ جدت طرازی کے مراکز‘ تحقیق کے لئے سازگار ماحول و سہولیات اور صنعتی کلسٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے تعلیمی اداروں‘ صنعت اور حکومت کے درمیان تعاون کو فروغ دیا۔ مثال کے طور پر‘ بیجنگ میں ژونگ گوانکون سائنس پارک‘ جسے چین کی سلیکون ویلی بھی کہا جاتا ہے‘ تکنیکی جدت طرازی کا مرکز بن گیا اور اِس مرکز نے ملکی و غیر ملکی دونوں کمپنیوں کو چین میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کیا۔ اِسی طرح زرعی شعبے میں‘ چین نے پیداواری صلاحیت میں اضافہ‘ استحکام اور تکنیکی ترقی کے لئے متعدد اقدامات کئے۔ چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز (سی اے اے ایس) اور چائنا ایگریکلچرل یونیورسٹی (سی اے یو) نامی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے زراعت میں تحقیق و ترقی کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ’سی اے اے ایس‘ قومی جامع زرعی تحقیقی ادارہ ہے‘ جو اعلی پیداوار والی فصل کی اقسام‘ مو¿ثر کاشتکاری کی تکنیک اور جدید زرعی ٹیکنالوجیوں کی ترقی پر توجہ مرکوز دیتا ہے۔ اسی طرح چین کی اہم زرعی جامعات میں سے ایک ’سی اے یو‘ نے زراعت میں انتہائی ہنر مند افرادی قوت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ چین نے اہم صنعتوں کی جدت و تکنیکی ترقی کے لئے قومی سطح کے انجینئرنگ ریسرچ سینٹرز (ای آر سیز) کا نیٹ ورک بھی قائم کیا۔ یہ مراکز جدید مینوفیکچرنگ‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی‘ مہارت کو فروغ دینے اور صنعتی ترقی کو فروغ دینے جیسے شعبوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ جدت اور تجارت کے فروغ کے لئے متعدد ادارے قائم کئے گئے۔ مثال کے طور پر نیشنل نیچرل سائنس فاو¿نڈیشن آف چائنا (این ایس ایف سی) سائنسی شعبوں کی وسیع رینج میں بنیادی تحقیق کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ادارہ محققین کو مالی مدد فراہم کرتا ہے‘ جس سے صنعتوں کو تحقیق و ترقی کی بدولت روایتی طریقے کے مقابلے جدید ہونے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ ’این ایس ایف سی‘ نے بائیو ٹیکنالوجی‘ قابل تجدید توانائی اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں نمایاں سائنسی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اسی طرح چائنیز اکیڈمی آف سائنسز (سی اے ایس)‘ جس میں راقم الحروف بطور ماہر تعلیم شامل ہے‘ نے سائنسی مہارت اور تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قدرتی سائنس میں ملک کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کی حیثیت سے‘ سی اے ایس بعداز تحقیق ’پالیسی مشورہ‘ دیتا ہے اور بین الاقوامی تعاون کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ بزنس انکیوبیٹرز‘ وینچر کیپٹل فنڈز اور انٹرپرینیورشپ مقابلوں کے قیام نے ’سٹارٹ اپس‘ اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) کے لئے ’معاون ماحولیاتی نظام‘ پیدا کیا ہے۔ اِس تناظر میں‘ وزارت ِسائنس و ٹیکنالوجی کے تحت ”ٹارچ ہائی ٹیکنالوجی انڈسٹری ڈویلپمنٹ سینٹر“ تکنیکی جدت اور انٹرپرینیورشپ (سازگار ماحول) کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی پر مبنی سٹارٹ اپس کو مالی وسائل کی فراہمی (فنڈنگ)‘ بنیادی ڈھانچہ اور رہنمائی فراہم کرتا ہے‘ جس سے وہ اپنے خیالات کا عملی اطلاق کرتے ہیں اور مصنوعات کو تجارتی بنانے کے قابل ہوتے ہیں۔ مزید برآں‘ انٹرنیٹ پر مبنی پلیٹ فارمز اور اِی کامرس کے عروج نے چین میں نجی کاروباری اداروں کی ترقی میں سہولت فراہم کی ہے۔ علی بابا جیسی کمپنیوں نے نہ صرف گھریلو مارکیٹ میں انقلاب برپا کیا ہے بلکہ یہ عالمی ٹیک جائنٹس بھی بن چکی ہیں۔ چین میں الیکٹرانکس کی صنعت نے برس ہا برس میں ایسی قابل ذکر ترقی دیکھی ہے‘ جس نے ملک کو عالمی مینوفیکچرنگ مرکز اور اِسے اِس شعبے میں منصوبہ سازی‘ اُس پر عمل درآمد اور افرادی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ چین کی الیکٹرانکس انڈسٹری نے سمارٹ فونز‘ ٹیلی ویژن اور کمپیوٹرز سمیت الیکٹرانک مصنوعات کی مینوفیکچرنگ میں بڑا نام کمایا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ فاکس کون‘ ہواوے اور شیاو¿می جیسی کمپنیاں عالمی الیکٹرانکس مارکیٹ میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔چین کی حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) صنعت کی ترقی کی حمایت کے لئے پالیسیوں پر عمل درآمد کیا ہے۔ ٹیکس مراعات‘ فنڈنگ سپورٹ اور ریگولیٹری اصلاحات جیسے اقدامات نے جدت و انٹرپرینیورشپ کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ حکومت نے صحت کی دیکھ بھال‘ فنانس اور مینوفیکچرنگ جیسے مختلف شعبوں میں ڈیجیٹل تبدیلی کو فروغ دینے کے لئے اقدامات بھی شروع کئے ہیں‘ جس سے ’آئی ٹی‘ حل اور خدمات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے‘ چین کی صنعتی ترقی کو مختلف عوامل سے منسوب کیا جاسکتا ہے‘ جس میں بشمول حکومتی پالیسیاں‘ غیر ملکی مینوفیکچررز کے ساتھ مشترکہ منصوبے اور گھریلو طلب جیسے پہلو شامل ہیں مزید برآں‘ چین نے الیکٹرک گاڑیاں (ای ویز) اور خود مختار ڈرائیونگ ٹیکنالوجیز تیار کرنے کے لئے ’آر اینڈ ڈی‘ میں سرمایہ کاری کی ہے۔ حکومت نے ’ای ویز‘ سے متعلق اہداف مقرر کئے ہیں اور ’ای ویز‘ کی پیداوار میں مصروف مقامی کمپنیوں کو مالی مدد اور سازگار حکمت عملیوں سے تقویت فراہم کی ہے۔ ’ای ویز مینوفیکچرنگ‘ اور اِس شعبے میں جدت کی وجہ سے چین عالمی سطح پر بلند مقام رکھتا ہے۔ اِسی طرح چین نے انجینئرنگ کی صنعت میں بھی نمایاں پیش رفت کی ہے خاص طور پر تعمیرات‘ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور بھاری مشینری مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں چین کی کامیابیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ملک نے تیز رفتار ریل نیٹ ورک‘ شاہراہوں‘ پلوں اور ہوائی اڈوں سمیت بنیادی ڈھانچے جیسے منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔ اِن منصوبوں نے نہ صرف انجینئرنگ خدمات کی بڑے پیمانے پر مانگ پیدا کی ہے بلکہ گھریلو انجینئرنگ کمپنیوں کو بھی اپنی مہارت کا مظاہرہ کرنے کے مواقع فراہم کیا ہے۔ چین کی انجینئرنگ انڈسٹری نے بھاری مشینری مینوفیکچرنگ میں نمایاں پیش رفت دیکھی ہے۔ سانی‘ زوملیون اور ایکس سی ایم جی جیسی کمپنیاں تعمیراتی مشینری اور سازوسامان کی پیداوار میں عالمی شہرت رکھتی ہیں۔ چین نے مقامی دفاعی سازوسامان کی ترقی و پیداوار کو ترجیح دی ہے‘ جس میں لڑاکا طیارے‘ بحری جہاز‘ میزائل سسٹم اور جدید ہتھیاروں کے پلیٹ فارمز شامل ہیں‘ مذکورہ بالا چند حقائق (پیش رفت) اس لئے عملاً ممکن ہوئی ہے کیونکہ چین نے اعلی تعلیم‘ سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لئے اقدامات پر عمل درآمد کیا‘ پاکستان کے لئے ضروری اور بطور لازم تجویز کیا جاتا ہے کہ چین کی معاشی ترقی سے متعلق حکمت عملی (اقدامات) کا مطالعہ کیا جائے ( بشکریہ دی نیوز۔ ترجمہ ابوالحسن امام)

Leave a Reply