Gumshuda aur gum gashta

گم شدہ اور گم گشتہ




وہ کہتے ہیں کہ یہ ذہنی بیماری کا شکار ہے ۔کیونکہ ہر کالم میں یا ہر دوسری تحریر میں یہ اپنے شہر کے بارے میں لکھتا ہے ۔وہ شہر جو گم شدہ ہے اور گم گشتہ ہے ۔مگر یہ صرف ہمارے شہر پشاور کے بارے ہی میں نوحے نہیں لکھے جاتے ۔ ہر تہذیب سے بھرے پُرے شہر کے باسی جو بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ پشور چھوڑیں لہور کے سینئر لوگوں کا بھی یہی المیہ ہے۔ تہذیب و ثقافت جہاں کنوﺅں سے پانی بھر کر لاتی ہو اور ہر گھر کے خالی برتنوں کو بھرتی ہو وہاں کا یہی المیہ ہوا کرتا ہے۔” گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں ۔ یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں“ ۔لاہور کے ایک معروف کالم نگار اور ادبی شخصیت کو جب میں نے نمونے کے طور پر اپنا کالم بھجوایا تو انھوں نے جواباً یہی تحریر فرمایا کہ میرے بھائی یہ پشاور کے رہنے والوں کا ہی دکھ نہیں ہے یہی کچھ لاہور کے ساتھ بھی ہے ۔بلکہ ہمارے خلاف کہیں یا ہمارے حق میں کہہ دیں محاورے بن چکے ہیں کہ یہ ناسٹلجیا کا شکارہے شاندار ماضی کس کو یاد نہیں ہوتا ۔ہاں اگر وہ اپنے بچپن اور اپنے بچپن کے شہر اور اس کی روایات اور تہذیب و ثقافت کو یاد رکھتا ہے تو وہ خود اس ماضی میں زندہ کردار کی حیثیت سے موجودتھا۔ اس حوالے سے اگر وہ اپنے اس ماضی کی یادوں کو بھلا نہیں پاتا تو پھر بھی یہ ناسٹلجیا نہیں ہے ۔ہاں وہ اگر بار بار تکرار کرے اور اپنے ماضی اپنے شہر اپنے خاندان اپنے بزرگوں اپنی صبح تا شام مصروفیات کا ذکر ہر وقت کرے او راس ذکر کی تکرار کرے تو دوسرا یہی کہتا ہے کہ اس تکرار سے کیا فائدہ ۔یہ تو ذہنی بیمار لگتا ہے۔یہ ناسٹلجیا واقعی ایک ذہنی بیماری ہے ۔مگر یہ بیماری اس وقت بنتی ہے جب لکھنے والا اپنے ہرم©ضمون میں اس کی تکرار کرے او ربار بار کرے تو الٹا اچھا لگنے کے ا س کا یہ طرزِ عمل برا لگنے لگتا ہے۔یوں یہ ذہنی بیماری کہلاتی ہے۔پشاور دور دراز کسی پہاڑ کی چوٹی پر بسنے والے گا¶ں کا نام نہیںہے ۔پشاور تو زندہ ہے اور دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔تہذیب و ثقافت سے مالا مال اور رہن سہن کی بھرپور جولانیاں اور رعنائیاں اس کی پہچان ہیں ۔ہم یونہی اس شہر کی زلفوں کے زندانی تو نہیںہیں۔” اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں میری رسوا۔ اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں“۔ ہیں ہمارے ہاں ایسے ادیب جو اپنے شہر کے اس ماضی کے بارے میں اپنے ہر افسانے میں لکھتے ہیں جس پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سات سمندر پار بیٹھ کر بھی وہ اپنے افسانوں میں قدیم پشاور کو نہیں بھولتے ۔کسی نہ کسی طرح پشاور کو یاد کرلیتے ہیں۔کسی نہ کسی بہانے پشاور کی پرانی تہذیب و ثقافت کی یاد دلاتے ہیں ۔چونکہ اس شاندار ماضی میں وہ خو دبھی موجود ہوا کرتے تھے اور اب بھی دھڑکتے دل کے ساتھ دنیا میں زندہ ہیں او رخدا ان کو لمبی حیاتی دے کہ ہمارے سرو ںپر سایہ فگن رہیں۔ ان کا بار بار اپنی جنم بھومی کا ذکرکرنا او ردیارِ غیر میں بیٹھ کر کرنا جہاںکی شہریت بھی ان کو حاصل ہے اور ان کی فیملی بھی وہیں ہے واقعی ناسٹلجیا کہلائے گا ۔لیکن تبصرہ کرنے والوں کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔رائٹر کی ایک تحریر ہوتی ہے اور اس پراپنی رائے دینے والے جانے کیا سے کیا کہہ دیتے ہیں۔جب تک شعر آپ کے پاس ہوتا ہے وہ آپ کاہوتا ہے او رجب تک کوئی آرٹیکل ابھی آپ نے شائع نہیں کیا ہوتا وہ بھی آپ کا اپنا ہوتا ہے۔مگر جب زیورِ اشاعت سے آراستہ ہو جائے تو وہ شعر وہ غزل وہ نظم یا نثر کا ٹکرا آپ کا نہیں رہتا ۔وہ ہر اس آدمی کا ہوجاتا ہے جو اس کو ریڈ کرتا ہے ۔اس کی رائے کی قدر کرنا ہوتی ہے ۔کیونکہ وہ تحریر عوام کی ملکیت ہو جاتی ہے ۔اس لئے عوام کی رائے میں خود رائٹر کا جواب دینا کسی طرح بھی جائز نہیں الٹا لکھاری خود برا لگے کہ وہ اپنے قارئین کو جواب دینے بیٹھ جائے۔

Leave a Reply