Lianyungang mn do din

 میں دو دن Lianyungang




بیجنگ میں چائنیزدفتر خارجہ کے علاوہ بیلٹ روڈ پروجیکٹ کے ماہرین سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔جن میں ان منصوبوں اور چین کے اہداف پر تفصیل سے بات ہوئی، امریکا چین سرد جنگ پر بھی بات ہوئی۔ چینی ماہرین اسے سرد جنگ کا نام دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔

ان کے مطابق یہ تنازعہ تو ہے لیکن جنگ نہیں ہے۔ میں نے سوال کیاکہ جو مملک چین کی طرف جھکاؤ دکھاتے ہیں تو امریکا ان سے ناراض ہوجاتا ہے۔

چینی ماہرین نے کہا یہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ممالک نے اپنے قومی مفاد میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے، وہ اپنا قومی مفاد دیکھیں اور جو ان کے ملک کے لیے بہتر ہے وہی کریں، کسی کی نہ سنیں،یہی آزاد ممالک کی خارجہ پالیسی ہونی چاہیے۔ ہم یہی چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک کو اپنی اپنی خارجہ پالیسی رکھنے کا حق ہونا چاہیے۔ یکساں ترقی کے مواقعے اسی کی راہ ہموارکریں گے۔

بیجنگ میں دو مصروف دن گزارنے کے بعد ہماری اگلی منزل Lianyungangتھی۔ یہ ایک بندرگا ہ ہے۔ بیجنگ سے Lianyungang جانے کے لیے چینی حکام نے ہمیں بلٹ ٹرین میں سفر کرایا۔ وہ ہمیں جہاز سے بھی لیجا سکتے تھے لیکن ہمیں بلٹ ٹرین دکھانا بھی ایک مقصد تھا۔

یہ بلٹ ٹرین تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے، یہ لاہور سے کراچی تین چار گھنٹے میں پہنچ جائے گی۔ یہ سفر جہاز سے زیادہ آرام دہ ہے۔ عام چینی سفر کے لیے اب بلٹ ٹرین کا استعمال کر رہا ہے۔ چین کی ترقی میں بہترین انفرا اسٹرکچر کا بھی ہاتھ ہے۔ چین سب ممالک کو بتانا چاہتا ہے کہ بغیر بہترین انفرا اسٹرکچر کے ترقی ممکن نہیں۔

Lianyungang جانے سے قبل میں سوچ رہا تھا کہ ایک بندر گاہ دیکھ کر کیا کروں گا۔ لیکن یہاں کمال کی بات یہ نہیں تھی کہ ایک بند گاہ ہے بلکہ میرے لیے کمال کی بات یہ تھی کہ Lianyungang سے ایک ٹرین چلتی ہے جو قازقستان سے ہوتی ہوئی چینی مال یورپ لے کر جاتی ہے۔ چین قا زقستان لاجسٹک کارپوریشن بیس دیکھنے کے قابل ہے۔

میں نے دنیا کی بہترین بندر گارہیں دیکھی ہیں لیکن میرے لیے چین قا زقستان ریل ٹریک نئی چیز تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ ٹرین تجارتی سامان لے کر وسطیٰ ایشیائی ممالک سے گزر کر براستہ ترکی یورپ میں داخل ہوتی ہے۔

تمام ملکوں میں اس ٹرین سے چین کا سامان پہنچتا ہے۔ واپسی پر چین کے لیے سامان آجاتا ۔ میں نے پوچھا کہ اس ٹرین کی آخری منزل کہاں ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ آخری منزل ایمسٹر ڈ یم ہے۔ یہ ٹرین مختلف ممالک سے ہوتی ہوئی بیس دن میں ایمسٹر ڈ یم پہنچ جاتی ہے۔

Lianyungang بندرگاہ سے سمند ر کے راستے سامان دنیا بھر میں آجا رہا ہے جب کہ بذریعہ ٹرین بھی سامان آ جا رہا ہے۔ یہ بات اس شہر کو ممتاز کرتی ہے۔ چینی حکام نے بتایا کہ بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کی خوبصورتی یہی ہے کہ اس میں تجارت کے لیے نئے نئے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔

Lianyungang میں ایک بہت بڑی پٹرو کمیکل انڈسٹرئل بیس کا بھی دورہ کرایا گیا۔ یہ پورا ایک شہر ہے۔ پٹرو کیمیکل بیس اپنی مثال ہے۔ Lianyungang کے میئر اور دیگر عہدیداران سے بھی ملاقات ہمارے دورہ میں شامل تھی۔ چینی سرکاری کھانوں میں بھی سادگی قابل دید ہے۔

یہ روایت ہے کہ مہمان خصوصی خود سب کے پاس چل کر جاتا ہے، بات کرتا ہے ۔ ہمارے ملک میں تو ہر ایک کوشش ہوتی ہے کہ وہ مہمان خصوصی تک پہنچ جائے ، وہاں وہ سب کے پاس خود آتا ہے۔ جب میرے پاس آئے تو مترجم نے بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں۔

اس نے فوری کہا کہ پاکستان اور چین بہترین دوست ہیں۔ ہم پاکستان کو بہت پسند کرتے ہیں۔ میرے لیے ان کی پاکستان سے محبت قابل دید تھی۔ میں نے کہا ہر پاکستانی چین کو اپنا بھائی سمجھتا ہے۔ انھوں نے کہا ہم بھی ہر پاکستانی کو بھائی سمجھتے ہیں۔ سی پیک کی بھی بات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان گوادر کو Lianyungang کی طرز پر بنا سکتا ہے۔

آپ Lianyungang دیکھیں۔ یہ پاکستان کے لیے بہترین ماڈل ہے۔ میں نے کہا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ سی پیک پاکستان کے لیے گیم چینجر ہے۔ انھوں نے کہا کام تیز کریں۔ مجھے اندازہ ہوا کہ چین میں یہ سوچ ہے کہ کام سست ہے۔ کام کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ جب سی پیک شروع ہوا تب ہی Lianyungang پر کام شروع ہوا۔ آج یہ مکمل ہے۔ جب کہ گوادر کی کوئی شکل ہی نہیں ہے۔

Lianyungang میں فارما سو ٹیکل انڈسٹری بھی لگائی گئی ہے۔ جہاں سے چین ادویات برآمد کر رہا ہے۔ عالمی فارماسو ٹیکل کمپنیوں نے بھی اپنی فیکٹریاں یہاں لگائی ہیں۔ چین نے خو د بھی یہاں فیکٹریاں لگائی گئی ہیں۔ چین کی اپنی روایتی میڈیسنز بھی ہیں۔

ان کی جدید فیکٹریاں بھی یہاں لگائی گئی ہیں ۔ میڈیکل ریسرچ سینٹر بھی یہاں بنایا گیا ہے۔ جہاں نئی ادویات کی بھی ریسرچ ہو رہی ہے۔ ادویات کا خام مال پہلے درآمد کیا جاتا ہے، پھر ادویات برآمد کی جاتی ہیں، اس طرح ایک انڈسٹری قائم کی گئی ہے۔

Lianyungang میں کرسٹل کی انڈسٹری بھی قائم کی گئی ہے۔ پوری دنیا سے مہنگے پتھر لائے جاتے ہیں۔ ان کے جواہرات بنائے جاتے ہیں اور پھر انھیں درآمد کیا جاتا ہے۔ چین میں بھی کافی مہنگے پتھر موجود ہیں۔ جو یہاں لائے جاتے ہیں۔

تاجروں اور سیاحوں کے لیے یہاں ایک کرسٹل میوزیم بھی بنایا گیا ہے۔ جہاں بہت قیمتی پتھر موجود ہیں۔ پتھر سے بنائی گئی چیزیں بھی موجود ہیں۔ یہ میوزیم دیکھنے کے قابل ہے۔ اس کے ساتھ ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی بنائی گئی ہے۔ جہاں دنیا بھر سے لوگ مہنگے پتھروں اور نوادرات اور زیورات خریدنے آتے ہیں۔ اس مارکیٹ میں کئی ہزار دکانیں ہیں۔

Lianyungang میں دو دن بہت مصروف تھے۔ چینی حکام کی کوشش تھی کہ وہ ہمیں بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے تحت قائم اس شہر کی ہر چیز دکھائیں۔ لیکن دو دن میں یہ ممکن نہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے یہ Lianyungang بہت اہم ہے۔

وسطیٰ ایشیا کے ممالک کو یہاں سے ٹرین سے تجارت ہوتی ہے۔ عرب ممالک اسی بندر گاہ سے تجارت کرتے ہیں، تیل یہاں آتا ہے، اس لیے Lianyungang کی ترقی چین کی ترقی کی ایک شکل ہے۔ پاکستان کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔

Leave a Reply