Mahaz arai nhi maeshiat

محاذآرائی نہیں معیشت




حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود معاشی ماہرین اب بھی دیوالیہ کاخطرہ ظاہر کررہے ہیں جب تک برآمدات نہیں بڑھائیں گے تب تک یہ خطرہ مکمل طورپرختم نہیں ہوگا مخدوش حالات میں کسی ملک یا مالیاتی اِدارے سے مزید قرضہ بھی نہیں مل سکتاایسی کسی نوعیت کی درخواست کرنے پر یقینی ادائیگی کا طریقہ کاریا منصوبہ دریافت کیا جا سکتاہے پاکستان کے پاس آمدن کے زرائع محدود ہیں اسی بناپرنئے قرض کے لیے عالمی اعتماد میں کمی آئی ہے بدقسمتی سے اب بھی معیشت کی بجائے محازآرائی کو فوقیت حاصل ہے حالانکہ ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو اِس کے نتائج صرف عام آدمی نہیں بلکہ ہر طبقے کے لیے تباہ کُن ہونگے پالیسیوں میں تسلسل، برآمدی مالِ تجارت میں اضافے اور ڈالر پر انحصار میں بتدریج کمی معیشت کے لیے آکسیجن ثابت ہو سکتی ہیں لیکن آج کل ملک سیاسی عدمِ استحکام سے دوچار ہے۔
ڈالر عالمی کرنسی سہی لیکن گزشتہ دس برسوں کے دوران کئی ممالک متبادل کرنسی میں تجارت شروع کر چکے ہیں بالخصوص 2016 میں اِس حوالے سے کافی تیزی دیکھنے میں آئی ہے جس سے عالمی تجارت میں روسی روبل، چینی یوآن اور بھارتی روپے کا کردار بڑھا ہے عالمی تجارت پر نظر رکھنے والے کئی اِدارے متفق ہیں کہ گزشتہ چندبرسوں سے ڈالر کی بالادستی خطرے میں ہے اورتجارتی حوالے سے یہ خطرہ اکیس فیصد سے زائد ہے روس اور یوکرین جنگ سے حاصل بالادستی کے زوال میں مزیدتیزی آئی ہے امریکہ کی روس پر پابندیاں بھی اہم وجوہات میں سے ایک ہیں روس نے سستا تیل خریدنے کے آرزو مند پاکستان سمیت کئی ممالک کو ڈالر کے متبادل کرنسی میں ادائیگی کی سہولت دے رکھی ہے اور اب پاکستان بھی چینی کرنسی یوآن میں ادائیگی کر سکتا ہے حالات سے فائدہ اُٹھاکر پاکستان تجارتی لین دین میں ڈالر کے انحصار میں کمی لاسکتاہے بظاہر ٹیسلا جیسے اِدارے کے سربراہ جن کا شمارعالمی سطح پر امیر ترین افرادمیں ہوتاہے نے واضح الفاظ میں دھمکی دی ہے کہ اگر ڈالر کی بجائے مقامی کرنسیوں میں تجارت کرنے سے منافع کی بجائے نقصان کا امکان بڑھ جائے گا مگر اِس دھمکی کواِس وقت کوئی بھی سنجیدہ لینے پرتیارنہیں عالمی تجارت میں یوآن کا فروغ پذیرکردارایک حقیقت ہے لیکن امریکہ باوجود کوشش کے نہ تو چینی ترقی روک سکا ہے اور نہ ہی ڈالر کی اجارہ داری قائم رکھنے میں کسی نوعیت کی غیرمعمولی کامیابی حاصل کرسکا ہے اب تو روبل اور روپیہ بھی مقابلے پرہے بھارت پہلے اگر 19 ممالک سے اپنی کرنسی روپیہ میں تجارت کررہا تھا جن میں اسرائیل،بنگلہ دیش، جرمنی، روس، ملائشیا، سنگاپور،نیپال، بھوٹان، مالدیپ،سری لنکا وغیرہ شامل ہیں اب بھارت روپے میں تجارت کا دائرہ کار چالیس ممالک تک بڑھانے کے منصوبے پر عمل پیراہے اسی طرح روبل اور یوان میں جاری تجارت دنیا کے کئی براعظموں تک وسعت اختیار کر چکی ہے لہذا وقت آگیا ہے کہ پاکستان بھی تجارتی معمولات میں تبدیلیاں لائے تاکہ ڈالرکی بالادستی سے چھٹکارے کے ساتھ قرضوں سے نجات ملے۔
ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمارے معاشی ارسطو ناکام ہو چکے ہیں مفتاح اسمعٰیل کو ہٹاکر بڑے طمطراق سے اسحاق ڈار کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپا گیا جنھوں نے کئی ایسے دعوے کیے جو
ہنوز پورے نہیں ہوسکے نہ صرف زرِ مبادلہ کے ذخائر میں تشویشناک حدتک کمی آئی ہے بلکہ عالمی مالیاتی اِدارے باوجود کوشش کے مزید قرض دینے سے ہچکچارہے ہیں اگلے برس2024 میں ہم نے پچیس ارب ڈالراداکرنے ہیں جن میں پندرہ ارب قلیل مدتی جبکہ سات ارب ڈالر طویل مدتی قرض ہے قلیل مدتی قرض میں چین کے چار ارب، سعودیہ کے تین جبکہ متحدہ ارب امارت کے دوارب ڈالر شامل ہیں لیکن تجارتی خسارے پر کیسے قابو پانا ہے؟ حکمران تعین نہیں کرسکے حالات کاتقاضا ہے کہ نتیجہ خیز طریقہ کاروضع کیاجائے کیا ہمارے لیے یہ باعثِ شرم نہیں کہ ہم سے آزادی حاصل کرنے والا بنگلہ دیش آج ہم سے زیادہ مستحکم معاشی بنیادوں پر کھڑا ہے اُس کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر 31 ارب سے زائد جبکہ ہمارے پاس محض چارارب ڈالر ہیں اُس کی برآمدات 52 ارب جبکہ ہم 31ارب ڈالرکے قریب ہیں وہ تجارت میں ملکی کرنسی ٹکا کو فروغ دے رہا ہے ہم آج تک بمشکل بارٹر سسٹم تک پہنچ سکے ہیں اور لکیر کے فقیر کی طرح قرض لیکر امورِ مملکت چلانے پر تکیہ ہے اگرہم نے ادائیگیوں میں ناکامی سے بچنا ہے تو فوری طورپر برآمدات میں اضافہ،غیر ضروری درآمدات میں کمی،بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زراور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کوفروغ دینا ہو گا مگر رواں برس برآمدات میں بارہ فیصد،ترسیلاتِ زر میں تیرہ جبکہ بیرونی سرمایہ کاری میں گزشتہ سال کی نسبت 23 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے ایسے حالات میں بہتری کا گمان دانشمندی نہیں۔
پاکستان کی جغرافیائی خوش قسمتی ہے کہ روس،وسطی ایشیائی ریاستوں،افغانستان جیسے ممالک سمیت چین کے مغربی علاقوں کے لیے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے گوادر بندرگاہ کے فعال ہونے سے تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بننے والا ہے فائدہ اُٹھانے کے لیے ہمیں بہتر منصوبہ بندی سے کام لینا ہوگالیکن عالمی اشاریے مثبت نہیں جن میں ہماری کوتاہیوں کا بڑاعمل دخل ہے فوڈ اینڈایگریکلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے غذائی قلت سے خبر دار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے 8.5 فیصد لوگوں کو رواں برس ستمبر اور دسمبر میں شدید غذائی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے جس کی وجہ سیاسی انتشار کے ساتھ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج ملنے میں تاخیرہے علاوہ ازیں آئندہ تین برسوں کے دوران پاکستان کو 77.5ارب ڈالرکی خطیررقم قرضوں کی مد میں ادا کرنی ہے اگر معاشی،سیاسی اور سرحدی علاقوں میں سکیورٹی صورتحال بدستور خراب رہی تو کوئلے اور خوراک جیسی برآمدات میں کمی کا الگ خطرہ ہے زرعی ملک ہونے کے باوجود دس ارب ڈالر تو ہرسال خوراک کی درآمدات پرخرچ کر دیتے ہیں یہ تیل کے بعد سب سے بڑادرآمدی خرچ ہے جو زرعی ملک کے لیے نہایت شرمناک ہے مگر ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات سے اب بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے پُرعزم ہیں بلکہ ایسی قیاس آرائیاں تقویت حاصل کررہی ہیں کہ ترجیحات میں معیشت ثانوی جبکہ سیاسی کامیابیاں اولیں ترجیح ہیں اسی بناپر معاشی حالت مزید بگڑ نے کا امکان رَد کرناممکن نہیں۔
حکومتی اخرجات بے ہنگم ہو چکے ہیں وزیرِاعظم،وزیرِ خارجہ سمیت مولانا فضل الرحمٰن تک خصوصی طیارے پر سفر کرنا پسندکرتے ہیں ایسے اطوارقرضوں کی دلدل میں پھنسے ملک کو مزید دھنسانے کا باعث ہیں حکومتی اشرافیہ سادگی کلچر اپنا کر اربوں کی بچت کر سکتی ہے پاکستان،ایران اور ترکی میں بذریعہ ریل تجارت جاری ہے رواں برس دوجون کو روس،ایران،اور افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ تجارت کا معاہدہ بھی ہو چکایہ کسی حدتک معاشی بہتری کی طرف پیشقدمی ہے مگر پابندیوں اور ڈالر کے ڈسے ایران سے سرحدی تجارت کا طریقہ کارمربوط بنانے اورچین سے مہنگے قرض لینے میں احتیاط بھی ضروری ہے اِس وقت غیرملکی سگریٹ کا 48فیصد سمگل ہو کر آتا ہے جس سے ٹیکس یا ڈیوٹی کی مد میں ملک کابھلاہونے کی بجائے کئی سوارب کا نقصان ہوتاہے اِس طرف توجہ دینے کے ساتھ سرحدی سمگلنگ پر پانے سے اربوں روپے کا ریونیوحاصل کیا جا سکتاہے علاوہ ازیں ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کی برآمدات کم ہوتی جارہی ہیں جو موجودہ پالیسیوں کی ناکامی کی دلیل ہیں توانائی کی قلت پر قابو پاکر ملکی صنعت کا پہیہ رواں کیاجائے تو برآمدات میں کافی حدتک اضافہ ممکن ہے یہ ٹھیک ہے کہ ترکیہ اورچین پاکستان کے دوست ممالک ہیں لیکن اُن کی ایسی کمپنیاں جن کی دونمبری ثابت ہوچکی اُن پرپا بندی لگاکر ملکی وسائل بچائے جا سکتے ہیں نیزمقامی مصنوعات پر صارفین کا اعتماد بحال کرنے نیز پُرتعیش اشیا کی درآمد ختم کرنے سے بھی درآمدات پر اُٹھنے والے اخراجات کم کئے جا سکتے ہیں ہر میدان میں خود کفالت کی پالیسی سے بھی قرضوں کا بوجھ ہلکا کرنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے۔

Leave a Reply