Nafraton aur muhabaton ki kahani

نفرتوں اور محبتوں کی کہانی




یہ ایک ایسے سیاہ فام امریکی کی کہانی ہے جونفرتوں میں پلا بڑھا اور ایک مقام پر اس نے اپنی نفرت کو محبت میں بدل دیا۔”جب میں 9 سال کا تھا میں نے اپنے بیک یارڈ میں گورے پولیس والوں کے ہاتھوں اپنی ہم نسل کالی عورت کو مار کھاتے ہوئے دیکھا تھا مجھے گوروں سے خوف آتا تھا بالٹی مور امریکہ کا وہ علاقہ ہے جہاں میرے ہم نسل کالوں کی اکثریت ہے‘ اور بالٹی مور کا یہ مغربی علاقہ نسل پرستی کے طورپر جانا جاتا ہے ہم گوروں سے نفرت کرتے ہیں اور وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں‘ ایک ایسی ہی نفرت انگیز شام تھی جب کہ میں اور میرا چھوٹا بھائی پیٹرک کھیل رہے تھے ہمارے والد نے ہمیں اپنے کمرے میں بلایا وہ اپنے نائٹ سوٹ میں تھا اور افسردہ سا لیٹا ہوا تھا میرا بھائی سمجھ داری والی عمر میں نہیں تھا لیکن میری عمر اس قابل تھی کہ بات کو سمجھ سکے۔ میرے والد نے مجھے بتایا کہ کیا تم کبھی نہیں جاننا چاہتے کہ میری ماں کہاں ہے‘ میں نے کہا ہاں میں اپنی ماں کے بارے میں ہمیشہ جاننا چاہتا ہوں میں نے اسے کبھی کبھی اپنے آس پاس نہیں دیکھا‘ میں تو یہ سمجھتا ہوں شاید میری ماں اس دنیا میں نہیں ہے لیکن میرے والد نے یہ بتا کر میرے ہوش و حواس چھین لئے کہ میری ماں زندہ ہے اور گوری نسل سے تعلق رکھتی ہے ۔میری حیرت کی انتہا نہ رہی اب میں اپنے دوستوں اور کمیونٹی کے لوگوں سے اس بات کو ہمیشہ چھپاتا رہا کہ میری ماں گوری ہے مجھے علم ہے میرے سکول کے100% کالے طلباءو طالبات گوروں سے کس قدر نفرت کرتے ہیں اتنی ہی نفرت جتنی گورے ہم لوگوں سے کرتے ہیں شاید یہ نفرت امریکہ کے رہنے والے لوگوں کے خون سے دوڑتی رہتی ہے میرے والد ہر صورت میں مجھے میری ماں سے ملانا چاہتے تھے میں ابھی چھوٹا تھا لیکن ماں باپ کے رشتوں کو ضرور سمجھتا تھا میرے والد مجھے ایک اجنبی سے ویٹنگ روم میں ایک کرسی پر بٹھا کر خود چلے گئے میرا دل دھڑک دھڑک کر باہر آنا چاہتا تھا ماں کا رشتہ ایسا دل فریب اور حسین ہے کہ میں اپنی زندگی میں پہلی بار اپنی ماں کی شکل دیکھوں گا‘ بہت دیر گزر گئی شاید میرے اعصاب اور میرے دل کا امتحان کا وقت بہت لمبا تھا میں نے دیکھا ایک نہایت پتلی گوری عورت آرہی ہے ، اسکی آنکھیں نیلی ہیں اور اس کا چہرہ زرد ہے وہ میرے قریب آگئی اور اس کے ہاتھ پھیل گئے اور اس نے مجھے اپنے اس بڑے سے سوئٹر میں چھپا لیا میں نے بڑی بے دلی کے ساتھ اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور مصنوعی طریقے سے ٹھپکا‘ میری ماں کتنی ہی دیر روتی رہی اور پھر وہ چلی گئی ،میرے لئے تو اس وقت دنیا ہی تھم چکی تھی ایسا لگتا تھا جیسے سب کچھ سلوموشن میں ہو رہا ہے جسے اصلی اور تیز رفتار دنیا کہیں بہت پیچھے چلی گئی ہے میرے والد آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر لے گئے میں اپنی ماں سے مل کر بھی اپنی اجنبیت نہیں بھلا سکا جو کہیں میرے دل میں گورے لوگوں کیلئے رچی بسی تھی۔ میرے والد کی شادی 1963ءمیں اس وقت ہوئی تھی جب امریکہ میں قانون لاگو تھا کہ کوئی گورا یا کوئی کالی عورت آپس میں شادی نہیں کرسکتے اور نہ کوئی کالی نسل کا مرد کسی گوری عورت سے شادی کر سکتا ہے میرے والد گوروں کی کمیونٹی میں کئی کلومیٹر پیدل سفر کرتے چھپ کر میری ماں سے ملنے جاتا تھا کیونکہ وہ دونوں شادی کرچکے تھے ویٹنگ روم میں اپنی ماں سے یہ ایک دفعہ کا ملنا مجھے ہمیشہ یاد رہ گیا تھا جیسے جیسے ان نفرتوں کے ساتھ میں بڑا ہوتا گیا اور میں نے اپنے لئے صحافت کے پیشے کو منتخب کیا‘ بالٹی مور میں گورے پولیس والوں کے ہاتھوں فریڈی گرلے کے قتل نے نسل پرستی کو زیادہ ہوا دی۔ اسکے بعد2020ءمیں جارج فلائیڈ کو جس طرح پولیس نے گردن پر پاﺅں رکھ کر اسکی سانس بند کردی تو کمیونٹی کا غصہ انتہا پر تھا میری حیرت کی انتہا اس وقت ہوگئی جب میں صحافی بنا تو ان تمام احتجاجی جلسے جلوسوں میں خود شریک ہوا جس جگہ میں اپنی ماں سے ملا تھا مجھے معلوم ہوا کہ وہ تو ذہنی مریضوں کا ہسپتال تھا اورمیری ماں شیزو فرینسیا کی مریضہ بن چکی تھی وہاں اپنی ماں سے متعدد بار ملنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ گورے یا کالے صرف ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے بلکہ آپس میں بھی یہ کمیونٹیاں ان نفرتوں کا شکار ہیں ۔ میری ایک خالہ بھی تھی جو گوری تھی اس کا نام میری تھا وہ ہم دونوں بھائیوں سے پیار کرتی تھی وہ بچپن سے ہی مجھے خط لکھتی تھی کارڈز بھیجتی تھی جن کو میں بغیر پڑھے ایک ڈبے میں پھینک دیا کرتاتھا ایک دفعہ وہ مجھ سے ملنے بھی آئیں لیکن اب میں جوان ہو چکا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے ان رویوں پر معذرت کرتے جو وہ میرے خاندان کے ساتھ روا رکھ چکے تھے لیکن اس نے ہمیشہ معذرت سے گریز کیا اپنی ماں کی مجبور حالت دیکھ کر گوروں کے ساتھ رویے میں میرے اندر واضح تبدیلی آگئی تھی میں نے سوچا کہ کتنے ہی کالے لوگ اپنے ہی کالے لوگوں کو اچھا نہیں سمجھتے تو یہ رویے ہیں جن کو ہم نے خود تبدیل کرنا ہے مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ میں بھی ایک ایسی دوکان پر اپنی تصویر پینٹ کرنے کیلئے پینٹ خریدنے گیا تھا وہاں ایک گورا اور ایک کالا سیلز مین تھے گورا لڑکا فون پر بات کر رہا تھا اگرچہ کالا لڑکا مجھے سروس دے سکتا تھا لیکن میں اپنے ہی ہم زاد سے مدد لینے کیلئے تیار نہ ہوا اور گورے لڑکے کے فون بند کرنے کا انتظار کرنے لگا ۔میں نے سوچا کیا ہم سب اپنی اپنی کمیونٹیز میں نفرتوں اور محبتوں میںبٹے ہوئے ہیں۔ میری خالہ میری نے جب مجھے فون کیا تو میں اس سے ملنے گیا آج میں نے اس کو کہہ دیا تھا کہ اس نے کبھی بھی اپنے رویوں پر معذرت نہیں کی وہ خاموش ہوگئی اس نے آگے سے ایک لفظ نہ کہا مجھے میری برتھ ڈے وش کی بہت خوبصورت کارڈ دیا میں گھر آیا آج میں نے اس ڈبے پر نظر ڈالی جس میں میری خالہ کے خطوط اور کارڈز بھرے پڑے تھے اور جن کو میں نے کبھی بھی نہیں کھولا تھا میں نے ایک ایک کرکے ان کو کھول کے پڑھنا شروع کیا ہر خط میں معافی اور معذرت کے الفاظ بھرے ہوئے تھے میری آنکھیں آنسوﺅں سے بھر گئیں میں نے اپنی خالہ کو معذرت کرنے کیلئے فون کیا اور اس کو تمام واقعہ بتایا اس نے ایک جملہ کہہ کر مجھے حیرت سے گنگ کردیا اس نے کہا کوئی بات نہیں” ہم ایک خاندان ہیں“ یہ جملہ مجھے سرشار کرگیا‘ میرے خیالات یکسر تبدیل ہوگئے سب لوگ سب لوگوں سے نفرت نہیں کرتے ورنہ جارج فلائیڈ کے قتل کے احتجاج میں کالے لوگوں سے زیادہ گورے کیوں موجود ہوتے ہم سب انسان ایک خاندان کی طرح ہیں ہمیں اپنے دلوںکو برا رکھنا چاہئے۔

Leave a Reply