Plastic alodgi

پلاسٹک آلودگی




پلاسٹک کی صورت کرہ ارض کے ماحولیاتی تنوع کو جس بڑے خطرے کا سامنا ہے اُس کا ادارک کرتے ہوئے عالمی سطح پر ’پلاسٹک آلودگی کے خاتمے‘ کا سال منایا جا رہا ہے۔ پلاسٹک پر مبنی کوڑا کرکٹ کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال کیا ہے‘ اِس حوالے سے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں ’پلاسٹک آلودگی‘ دیگر اقسام کی آلودگیوں سے کہیں زیادہ سنگین معاملہ ہے اور ہوا میں ہم سانس لے رہے ہیں یا جو پانی ہم پی رہے ہیں یا جو کچھ بھی ہم کھا رہے ہیں‘ اِسے صحت افزا قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ کیمیائی مادوں سے بھرپور غذائیں اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی میں سانس لینے کی وجہ سے پاکستان کے کئی شہروں کی آب و ہوا انسانوں کے لئے خطرناک قرار دی جا چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو این ڈی پی) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 33 لاکھ ٹن سے زیادہ پلاسٹک کوڑا کرکٹ میں پھینکی جاتی ہے جسے تلف کرنے کے لئے جن کوڑا دفن کرنے والے مقامات کا استعمال کیا جاتا ہے اُن میں سے زیادہ تر ایسے مقامات ہیں جہاں مزید کوڑا ڈالنے کی گنجائش ختم ہونے کے لئے قریب پہنچ چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کوڑا کرکٹ تلف ہونے کی بجائے پھیل رہا ہے اور یہ مٹی‘ خوراک‘ ہوا اور پانی کو ’زہریلا‘ بنا رہا ہے۔ ماحولیات کے علوم میں ماہرین اور سائنسدانوں نے پلاسٹک کے غیرضروری اور غیرمحتاط استعمال کو خطرہ قرار دیا ہے اور اِس تحقیق کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ انسانی جسم کے اندر‘ خون کے ساتھ رگوں کے پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات (مائیکرو پلاسٹکس) گردش کرنے کا سراغ لگایا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ پلاسٹک کے یہ انتہائی باریک ذرات ’انسانی خلیات‘ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ دریں اثنا عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی سے ہر سال سات لاکھ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں جبکہ ہر سال ایک لاکھ ایک سو اٹھائیس ہزار پاکستانی فضائی آلودگی اور اِس سے پیدا ہونے والی صحت کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ وقت ہے کہ پلاسٹک سے درپیش مختلف اقسام کی آلودگیوں کے درمیان روابط کو سمجھا جائے اور اِس پر غور کرتے ہوئے بچوں اور نوجوان نسل کو پلاسٹک سے ہر ممکنہ حد تک الگ رکھا جائے۔ توجہ طلب ہے کہ پلاسٹک کی ایک بڑی مقدار جسے تلف کرنے کے لئے جلایا جاتا ہے تو اِس سے ایسی ماحول دشمن گیسیں خارج ہوتی ہیں جس سے ’فضائی آلودگی‘ بڑھ جاتی ہے‘ جو کرہ¿ ارض کے درجہ¿ حرارت میں اضافے کا باعث بھی ہے۔ یہ واضح ہے کہ اگرچہ پلاسٹک آلودگی یقینی طور پر ’خطرہ‘ ہے جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ کرہ¿ ارض کا ’مجموعی و مشترکہ مسئلہ‘ بھی ہے تو اِس سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر اشتراک عمل اور بین الاقوامی عہد کی ضرورت ہے۔ آلودگی پھیلانے والی بڑی صنعتوں اور صنعتی ترقی کرنے والے ممالک کے معاشی مفادات اور کرہ¿ ارض کے مفاد میں موجود تضاد ختم ہونا چاہئے۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ پلاسٹک انسانوں کی رگوں میں خون کے ساتھ گردش بھی کرنے لگا ہے اور اگر اب بھی اِس مسئلے کے بارے میں سنجیدگی و گہرائی سے نہ سوچا گیا تو ’بہت دیر‘ اور موجودہ نقصان سے بھی زیادہ ’بڑا نقصان‘ ہو سکتا ہے۔ یونیسکو کے پیرس ہیڈکوارٹر میں 175ممالک کے درمیان حالیہ مذاکرات کے بعد پلاسٹک آلودگی سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی معاہدے کا پہلا مسودہ سامنے آیا ہے جس پر ممالک مل کر غور کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ رواں برس (دوہزارتیئس) کے ماہ¿ نومبر کے مکمل ہونے تک یہ بین الاقوامی معاہدہ حتمی شکل اختیار کر لے گا دنیا کو مشترک مستقبل کےلئے ایسی تمام آلودگیوں کے خاتمے کے لئے متحد ہونا ہوگا جو مستقل خطرہ ہیں اور اِس خطرے سے نمٹنے کے لئے درکار مالی وسائل (فنانسنگ) کی فراہمی بھی ترجیحی بنیاد پر ہونی چاہئے۔

Leave a Reply