Police kay uthy hath

پولیس کے اُٹھے ہاتھ




کہتے ہیں دکھاوا بری شے ہے۔فرد ہوں یا ادارے جب جھوٹی نمود نمائش کا شکار ہو جائیں تو بالآخر جگ ہنسائی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے ایسے میں اگر یہ نفسیاتی بیماری جڑ پکڑجائے تو حدود قیو د کی کوئی انتہا نہیں رہتی، ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولے جاتے ہیں حکام بالا کوخوش کرنے کی تگ و دود میں کارکردگی اور قابلیت کا مظاہرہ ’جعلی کاروائیوں ‘ کے بل بوتے پر کیا جانامعمول بن جاتا ہے۔لیکن کیا کریں سچ کی ایک ہلکی سی چوٹ ہی جھوٹ کی بنیادوں پر کھڑی عمارت کو زمین بوس کر دیتی ہے۔ اب یہ سمجھنے کی بات ہے کہ کوئی اسے کیسے لیتا ہے۔ رہا عرقِ ندامت تو یہ ہر آنکھ کا شیوہ نہیں ہوتا بلکہ اکثرو اوقات صاف دیدہ افراد اور اداروں کے طرزعمل میں ڈھٹائی پنپتی ہے۔انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ انسانی زندگی میں ساکھ بھی کسی شے کا نام ہے۔ان کے نزدیک نوکری، ترقیاں، رُتبہ اور آسائش ہی اولین ترجیح رہتی ہے۔ مادی خوشحالی یا اسے برقراررکھنے کی سعی میں کسی بھی حد تک جانا پڑے یہ با آسانی چلے جاتے ہیں۔ کچھ یہی حال ان دنوں پنجاب پولیس کی جانب سے جنوبی پنجاب کے بدنام زمانہ کچے کے علاقہ میں موجود ڈاکوؤں کے خلاف ہونے والے آپریشن کا ہے۔ لیکن ٹھہریے!یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پنجاب پولیس کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ پنجاب پولیس کا ماضی اس حوالے سے ہمیشہ سے خاصا ’روشن‘ رہا ہے۔لگ بھگ دو ماہ تک کامیابی کا ڈھول پیٹنے کے بعد قوم کو پتاچلا کہ ڈھاک کے وہی تین پات۔نتیجہ ماضی سے ہرگز بھی مختلف نہیں گویا:
غارت گری پے اس کی دل خون سے رویا ہے
افسوس ہے ماتم ہے اور آہ و فغانی ہے
پنجاب پولیس کی جانب سے دو ماہ بعد اپنی ناکامی کا اعتراف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے استحقاق کے اجلاس میں کیا گیا۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انورکی قیادت میں ’کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے‘ کے بعد اچانک اجلاس کو بتایا گیا کہ پولیس ڈاکوؤں کے سامنے عملاً بے بس ہے کیونکہ کچے کے ڈاکو پولیس سے کہیں زیادہ بہتر اسلحے سے لیس ہیں۔ پولیس کے مطابق درحقیقت یہ امریکی اسلحہ ہے جس کی بدولت ڈاکو پولیس کو 2 کلومیٹر دور ہی سے نشانہ بنانے کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہیں۔ پولیس کے مطابق ڈاکوؤں کو بھارت نے تربیت دے رکھی ہے۔
پولیس کی معصومیت اور بے بسی کی انتہا ہے کہ اسے یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ ڈاکو کہاں سے بیٹھ کر اسے نشانہ بناتے ہیں۔گویا ڈاکووٗں نے سلیمانی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں۔ہائے اُس زود ِ پشیماں کا پشیماں ہونا۔بھارت نے انہیں کہاں تربیت دی، یہ بھی کچھ معلوم نہیں۔ڈی پی او راجن پور نے کہا کہ ہمارے پاس وہ اسلحہ نہیں اس لئے ہماری شہادتیں ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 9 اپریل کو آپریشن شروع کیا گیااور ڈاکوؤں کے قبضے سے 58 ہزار ایکڑ سے زائد زمین خالی کرائی گئی۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ جو اسلحہ فوج کے پاس ہے،کم سے کم کچے کی حد تک وہ اسلحہ پولیس کو دیا جائے۔ کمیٹی نے وزارت داخلہ اور وزارت ڈیفنس پروڈکشن کو اسلحے کی فراہمی کے لئے سفارش کر دی۔
پولیس کے اس اعترافی بیان کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان میں رہ جانے والا امریکی اسلحہ آخر کیونکر کچے کے ڈاکووٗں کے ہاتھ لگا؟افغانستان اور پاکستان کی سرحد سے لیکر کچے کے علاقہ تک ایک طویل فاصلہ ہے۔راستے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پولیس کی سینکڑوں چوکیاں اور ناکے موجود ہیں۔ایسے میں راکٹ لانچر، انٹی ائیر کرافٹ گنیں اور ایس ایم جیز جیسا بھاری اسلحہ باآسانی ڈاکوؤں کے ہاتھ لگ جانا
خود قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ذرائع تو یہ بتاتے ہیں آئی جی پنجاب پر آپریشن کی قیادت کے وقت ہونے والی مبینہ فائرنگ سے لیکر عمرانی سمیت دودرجن سے زائد خطرناک ڈاکوؤں کی گرفتاری اور ان کے قبضے سے وسیع علاقہ واگزار کروانے کے دعووٗں کی پولیس کہانی میں بہت سے کمزور پہلو ہیں جس پر اعلیٰ سطحی اور جامع تحقیقات کی ضرورت ہے۔ حقائق تو بتاتے ہیں کہ لگ بھگ 100کلومیٹر پر محیط کچے کا علاقہ کا بیشتر حصہ آج بھی چند سو پر مشتمل ڈاکووٗں کے قبضے میں ہے جن کے بارے میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ کہاں سے حملہ کرتے ہیں انہیں کچھ پتا نہیں چلتا۔پولیس کا زیادہ تر آپریشن ابھی تک راجن پور اور رحیم یار خان کے کچھ علاقوں تک ہی محدود ہے جبکہ دریائی
علاقہ کے جزیرے اب بھی ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ 2016میں چھوٹو گینگ کے خلاف ہونے والے آپریشن سمیت ماضی کی تمام پولیس کاروائیوں کے نتائج بھی موجودہ آپریشن جیسے ہی رہے۔ پولیس نے اس وقت بھی اس علاقہ میں کچھ چوکیاں بنائیں لیکن ڈاکو کل بھی وہاں موجود تھے اور آج بھی جوں کے توں موجود ہیں۔پولیس نہ تو ڈاکوؤں کو قابو کرسکی اور نہ اغوا برائے تاوا ن، قتل اور لوٹ مار کی کاروائیوں کو روک سکی۔یہ بھی غور طلب امر ہے کہ ایسے بڑے آپریشن سے قبل خفیہ معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں کہ سماج دشمن عناصر کی کتنی تعداد اور انکے پاس اسلحہ اور کس قدر وسائل ہیں اور ان کی پشت پناہی کون کرر ہا ہے۔لیکن حیرت انگیزامر ہے کہ کیونکر کوئی خفیہ ادارہ بشمول سپیشل برانچ ہنوز پولیس حکام کو اصل صورت حال سے آگاہ نہیں کرسکے۔؟راقم الحروف کی کچا آپریشن کی شروعات کے موقع پر آئی جی پنجاب سے ملاقات ہوئی جس میں ان سے یہی سوال کیا گیا تھا کہ ڈاکو جدید اور بھاری اسلحہ سے لیس نظر آتے ہیں پولیس کیونکر ان حالات میں ان پر قابو پاسکے گی؟ کچھ زیادہ ہی پر عزم نظر آنے والے پنجاب پولیس کے سربراہ کا کہناتھا کہ ہمیں فوج کی جانب سے سات اے پی سیز مل چکی ہیں جو آپریشن کے لیے کافی ہیں ہم اگلے چند روز میں کچے کے ڈاکووٗں کو اپنے گھٹنے پر لے آئیں گے۔ لیکن دو ماہ کے بعد گھٹنوں پر کون ہے اس کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نظر نہیں آتا۔ آئی جی پنجاب نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ 9مئی کے واقعات ایک مربوط حکمت عملی کا شاخسانہ ہیں۔پولیس کا معلوم ہے کہ اس میں کون کون ملوث ہے اسکے پاس آڈیو اور وڈیوز کی شکل میں ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے شر پسند 9مئی کو کیا کرنے کے مذموم ارادے رکھتے ہیں۔
اگر آئی جی پنجا ب کی یہ بات واقعی درست ہے تو یہ امر قابل گرفت ہے کہ پولیس نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے ایسے افراد کو قبل ازوقت گرفتارکیوں نہ کیا؟وہ آخر کیوں خامو ش تماشائی بنی سب کچھ دیکھتی رہی؟ کیا اس پر پولیس حکام کے خلاف تادیبی کاروائی نہیں ہونی چاہیے؟بات دراصل یہ ہے کہ سی آئی اے لاہور کی طرز پر صوبے بھر میں مبینہ پولیس مقابلے اور جعلی کاروائیاں کر کے نہ ہی بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پایا جاسکتا ہے اور نہ جرائم پیشہ افراد کو گرفت میں لایا جاسکتا ہے۔سچائی اور حقیقت پسندی پر مبنی پروفیشنل آپریشن ہی محکمہ پویس کی عزت و توقیر میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

Leave a Reply