Siasi tmasha band krein!!!!

!!!!!سیاسی تماشا بند کریں

ملک میں سیاسی سرکس لگی ہوئی ہے، سیاسی تماشا جاری ہے، سیاسی سرکس میں دیکھنے والوں کو حقیقت سے دور رکھنے لے لیے سیاسی سرکس میں پرفارم کرنے والے سب کے سامنے ہیں۔ اس سرکس کے مختلف کردار ہیں۔ کوئی غصے کا اظہار کر کے سننے اور دیکھنے والوں کے جذبات بھڑکاتا ہے تو کئی مزاحیہ گفتگو کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے، کوئی سنجیدہ اداکاری کرتا ہے تو کوئی ہر وقت رونا دھونا کرتا ہے۔ یہ ساری چیزیں آپکو ہماری سیاسی سرکس میں برسوں سے دکھائی دے رہی ہیں۔ وہ گھسے پٹے جملے، الفاظ اور گفتگو ہے۔ معذرت چاہتا ہوں اگر سیاسی جماعتوں کو یہ سخت الفاظ برے لگیں لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس حد تک حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو مخلص لوگ بھی زد میں آتے ہیں لیکن کیا اس کے سوا کوئی راستہ ہے۔ یقینا نہیں، کیونکہ جس بےرحمانہ انداز سے سیاسی سرکس کے کرداروں نے ملک کی بنیادوں کو ہلایا ہے اور ہلائے چلے جا رہے ہیں اس کے بعد کوئی راستہ باقی نہیں بچتا کہ ہمیں بہت واضح الفاظ اور کھلے انداز میں اس حوالے سے بات چیت کرنی چاہیے۔ بنیادی طور پر یہ ملک کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنا مستقبل بہتر بنانا چاہتے ہیں تو پھر ناصرف ہمیں حکمران طبقے کے حوالے حقیقت پسندی سے کام لینا ہو گا بلکہ خود احتسابی پر سب سے زیادہ توجہ دینا ہو گی۔ ہمیں جذباتی ہونے کے بجائے ہوش مندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی سرکس کے کرداروں کے جذباتی اور غیر حقیقی نعروں کو مسترد کرنا ہو گا۔ ہر وہ شخص جو دور کو پاس دکھاتا ہے، اندھیرے کو روشنی بتاتا ہے، صرف خوابوں کے محل بناتا ہے، غیر حقیقی دعوے کرتا ہے سب سے پہلے اس کا احتساب ضروری ہے۔ آج ملک بدترین معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ بنگلہ دیش ہم سے آگے نکل گیا ہے۔انہوں نے معیشت کے ہر شعبے میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مالی سال دو ہزار تیئیس چوبیس کے لیے اکہتر ارب ڈالر کا بجٹ پیش کیا ہے۔ شرح نمو کا ہدف 5•7 فیصد جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان گروتھ ریٹ کا ممکنہ ہدف تین 5•3فیصد رکھا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے پاس اکتیس ارب ڈالر کے ذخائر ہیں جب کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر چار ارب ڈالر سے بھی کم ہیں۔ ان کی درآمدات لگ بھگ باون ارب ڈالر جبکہ ہم لگ بھگ اکتیس بتیس ارب ڈالرز میں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ہر شعبے میں بنگلہ دیش ہم سے آگے ہے۔ ان کی کرنسی پاکستان سے مضبوط ہے۔ ہمارا روپیہ اتنا بے قدر ہو چکا ہے کہ اس حوالے سے ہر روز ایک بری، دل جلانے اور زخموں پر نمک گرانے والی خبر ملتی ہے۔ اس تنزلی اور بڑی ناکامی کے باوجود ہمارے سیاستدان یا حکمران طبقہ روزانہ بلند و بانگ دعوے کرتا ہے۔ تعمیری گفتگو کے بجائے سارا وقت لعن طعن، الزامات اور الزامات کا جواب دینے میں گذرتا ہے۔ ان کی آنکھیں اب کھل جانی چاہییں۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم زبانوں کو بند کر کے دماغوں کی کھڑکیاں کھولیں اور ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے متحد ہو کر کام کریں۔ اگر بنگلہ دیش معاشی طور پر ترقی کر سکتا ہے، معاشی طور پر مضبوط ہو سکتا ہے، درآمدات بڑھا سکتا، اس کے پاس لگ بھگ اکتیس ارب ڈالرز زرمبادلہ کے ذخائر ہو سکتے ہیں تو ہم یہ سب کیوں نہیں کر سکتے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ اس عدم استحکام کے سب سے بڑے ذمہ دار سیاستدان ہی ہیں۔ آج بھی دیکھیں حکمران پکڑ دھکڑ میں مصروف ہیں اور جن کے لوگ پکڑے جا رہے ہیں وہ ان گرفتاریوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ثابت کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ اس مہم میں انہیں کتنا جھوٹ بولنا پڑتا ہے وہ ایک لمحہ بھی نہیں سوچتے کہ اس سے فرق کیا پڑے گا۔ یہ ملک دشمن طرز سیاست اب بند ہونا چاہیے۔ ملک کے کروڑوں لوگ غربت میں زندگی گذار رہے ہیں، وہ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ان کا کیا قصور ہے۔ اس سیاسی سرکس کے بند ہونے سے ہی معاشی ترقی کا راستہ کھلتا ہے۔پہلے بھی کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ سیاسی شخصیات اور بالخصوص وفاقی و صوبائی وزراءکے لیے ضروری ہے کہ وہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے صرف اپنے محکموں کی کارکردگی، منصوبہ بندی، اہم فیصلوں، مختلف منصوبوں کے اخراجات، فوائد بتائیں، عوامی فلاح کے منصوبوں پر وقت لگائیں۔ یہ سب سے بہتر حکمت عملی ہے مجھے خوشی ہے کہ اس معاملے میں خواجہ سعد رفیق نے پہل کرتے ہوئے تعمیری کام کا آغاز کیا ہے۔ پریس کانفرنس میں ان سے سیاسی سوال ہوا تو انہوں نے اس کا جواب دینے کے بجائے محکمہ جاتی سوالات پر زور دیا۔ ان کا یہ طرز عمل ایک پختہ سیاسی سوچ رکھنے والے کارکن کا سب سے بہتر ردعمل ہے۔ کیونکہ پاکستان کو اس وقت تعمیر کہ ضرورت ہے اور تعمیر کے لیے ذاتی اختلافات کو سب سے پہلے بھلانا پڑتا ہے۔ محترمہ مریم نواز شریف کو بھی یہ ضرور سوچنا ہو گا کہ وہ ہر دوسرے دن قرضوں میں جکڑی اس قوم کے کئی گھنٹے صرف اس بیانیے پر ضائع کرتی ہیں کہ عمران خان نے کیا تباہی پھیلائی۔ وہ اس حوالے سے منفی جذبات کا اظہار بھی کرتی ہیں۔ کیا عمران خان کو نیچا دکھانے کا یہی ایک طریقہ باقی رہ گیا ہے۔ یا جو عمران خان نے کیا تھا وہ آپ نے بھی کرنا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ مریم نواز شریف اور ان کی سینئر قیادت قوم سے بات کرتے ہوئے صرف یہ بتائے کہ ملک کو آگے کیسے بڑھانا ہے، مہنگائی پر قابو کیسے پانا ہے، توانائی بحران کا خاتمہ کیسے کرنا ہے، ملک کو معاشی طور پر مضبوط کیسے بنانا ہے، اداروں کو منافع بخش کیسے بنانا ہے، رکے ہوئے کاروبار اور صنعتوں کو کیسے چلانا ہے، زراعت میں انقلاب کیسے لانا ہے۔ عوام کو بتانے والی بہت باتیں ہیں اگر حکمران نفرت پھیلانے کے بجائے محبت سے دلوں کو بدلنے کا سفر شروع کریں۔ یہ سیاسی سرکس بند کریں۔ زمین پر آئیں خواجہ سعد رفیق سے سبق سیکھیں اور ملک و قوم کی خدمت کریں۔ 




آخر میں شاعر مشرق علامہ اقبال کا کلام

 تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا

خودی کا راز داں ہو جا،خدا کا ترجماں ہو جا

ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو

اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا

یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی

تو اے شرمندا ساحل اچھل کر بیکراں ہو جا

غبار آلود رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے

تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے پَرفشاں ہو جا

خودی مِیں ڈوب جا غافل یہ سِرِ زندگانی ہے

نکل کر حلق شام و سَحَر سے جاوداں ہو جا

مَصافِ زندگی مِیں سیرتِ فولاد پیدا کر

شبستانِ محبت مِیں حریر و پَرنیاں ہو جا

گزر جا بَن کے سیلِ تند رَو کوہ و بیاباں سے

گلستاں راہ مِیں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا

تِرے عِلم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی 

نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت مِیں نوا کوئی

Leave a Reply