Sonami pr fateha pr lyn

سونامی پر فاتحہ پڑھ لیں




سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے ایم ٹی آئی ایکٹ کے نام پرسرکاری ہسپتالوں میں نام نہاداصلاحات اورصحت انصاف کارڈکے نام پرعوام کے مفت علاج معالجے کا جو ڈرامہ رچایا تھا اس کے ثمرات اب سامنے آناشروع ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کو اقتدار سے جاتے ہوئے سال سے زائدکاعرصہ گزرچکاہے لیکن کپتان اورکپتان کے اناڑی کھلاڑیوں کے عوام پرآسمانی بجلی بن کرگرنے والے کارنامے تاحال ختم ہونے کانام نہیں لے رہے۔کپتانی ٹولے نے صحت اصلاحات اور انصاف کارڈ کے نام پر جو کارنامہ سرانجام دیا تھا وہ کارنامہ اب نہ صرف سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز،نرسزاوردیگرسٹاف کے گلے پڑا ہواہے بلکہ اسی کارنامے سے اب عوام بھی جان چھڑا نہیں پا رہے۔ جن ہسپتالوں میں عوام کووی آئی پی طریقے سے مفت علاج معالجے کے خواب دکھائے گئے تھے ایم ٹی آئی اصلاحات کی برکت سے آج ان ہسپتالوں میں عوام کومفت ادویات دینے کے لئے بھی پیسے نہیں۔ایم ٹی آئی کی برکت سے ہزارہ کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال ایوب میڈیکل کمپلیکس میں پچھلے بارہ دن سے غریب عوام رل رہے ہیں۔وہ ہسپتال جہاں سونامی کی آفت اور مصیبت آنے سے پہلے عوام کا فری علاج ہوتا تھا اب ان ہسپتالوں میں بھی صحت انصاف کارڈکی برکت سے عام ٹیسٹ اورمعمولی علاج کے بھی عوام کوہزاروں روپے خرچ کرنے پڑرہے ہیں۔صحت انصاف کارڈسے غریب عوام کاعلاج توفری نہیں ہوالیکن جن سرکاری ہسپتالوں میں پہلے عوام کامفت اورفری علاج کیاجاتاتھااب وہ علاج بھی مفت اورفری نہیں رہاہے۔ایم آرآئی اورسی ٹی سکین سمیت دیگرٹیسٹوں اورعلاج کے اب سرکاری ہسپتالوں میں بھی عوام سے اتنے ہی پیسے لئے جارہے ہیں جتنے باہرپرائیوٹ ہسپتالوں اور قصاب خانوں میں وصول کئے جاتے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں کی موجودہ حالات کودیکھ کراگریہ کہاجائے کہ کپتان اورکپتان کے اناڑی کھلاڑیوں نے ایم ٹی آئی اصلاحات اورصحت انصاف کارڈکے نام پر سرکاری ہسپتالوں کوتباہ اوربربادکرکے چھوڑاہے تو بے جا نہ ہو گا۔ صحت انصاف کارڈکے ڈرامے کے ذریعے نجی ہسپتالوں کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں
میں جتنی کرپشن اورلوٹ ماراس دورمیں ہوئی ہے اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئی ہوگی۔جولوگ کل تک صحت انصاف کارڈپرتالیاں بجارہے تھے آج وہ علاج معالجے کے لئے دردرکی ٹھوکریں کھاتے ہوئے آنسوبہارہے ہیں۔ایم ٹی آئی ایکٹ کے نام پر سرکاری ہسپتالوں میں اصلاحات اور تبدیلی کی جوفلم چلائی گئی تھی وہ پوری کی پوری فلم فلاپ بری طرح فلاپ ہوچکی ہے۔مہذب معاشروں اورترقی یافتہ ممالک میں تو ایسانہیں ہوتا جس طرح امریکہ اوربرطانیہ کی مثالیں دے کرعمران خان اوراس کے ٹولے نے یہاں کے سرکاری ہسپتالوں میں کیا۔بلی کے گلے پر چربی بھی کوئی باندھتاہے۔؟یادودھ کی رکھوالی پرکوئی بلی کومامورکرتاہے۔؟کپتان نے اپنے کزن نوشیروان برکی کونوازنے اوربے سینک بادشاہ بنانے کی خاطرایم ٹی آئی اصلاحات کے نام پردودھ کے ہرسرکاری کٹوے پرنہ صرف بلیاں بلکہ ہرسرکاری ہسپتال میں بڑے بڑے بلے بھی مامور کئے جودودھ کے ساتھ اوربھی بہت کچھ چاٹ گئے ہیں۔ آج سرکاری ہسپتالوں میں غریب عوام کے لئے جوایک سرنچ تک دستیاب نہیں یہ سب اس ایم ٹی آئی کی برکات ہی توہیں۔ایم ٹی آئی سے پہلے یہی ہسپتال اچھے بھلے طریقے سے چل رہے تھے یہاں عوام کامفت علاج بھی ہوتاتھااوران کوادویات بھی دی جاتی تھیں لیکن ایم ٹی آئی ایکٹ کے بعد خودمختاری کے نام پر ان سرکاری ہسپتالوں کا نظام وانتصرام چند مخصوص لوگوں یا ٹولے کے ہاتھ میں دینے سے اب ان ہسپتالوں میں غریبوں کا سوائے ایڑھیاں رگڑنے کے کچھ نہیں ہوتا۔ ایک ایم ایس اور چیف ایگزیکٹیوکے ذریعے جن ہسپتالوں کا کامیاب نظام چل رہا تھا ایم ٹی آئی نظام کے ذریعے ان ہسپتالوں کے اتنے مالک اور باپ بنا دیئے گئے کہ جن کاکوئی شمار نہیں۔ میڈیکل ڈائریکٹر، ہاسپیٹل ڈائریکٹر، نرسز ڈائریکٹر اور منیجرز کے نام پرماہانہ لاکھوں کی تنخواہوں پر اتنے نکمے قسم کے افسر بھرتی کئے گئے کہ جن کاکوئی حساب نہیں۔ ہر وہ بندہ جن کاکپتان یاکپتان کے کسی کھلاڑی کے ساتھ کوئی تعلق اورواسطہ تھاانہیں ان ہسپتالوں میں ڈائریکٹریامنیجرلگایاگیا۔پھرعمران خان کے کزن نوشیروان برکی کوان سب کاباپ بنایا گیا۔ نوشیروان برکی جواکثرباہررہتے ہیں وہ سال دو نہیں بلکہ سالوں سے ان ہسپتالوں کوامریکہ سے آن لائن چلارہے ہیں۔ یہی حال ان ہسپتالوں کے بورڈآف گورنرزکے ممبران اورچیئرمینز کابھی ہے۔نوشیروان برکی کی طرح اے ٹی ایچ کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے آن لائن چلانے والے ڈاکٹر عاصم یوسف جوہزارہ کے سب سے بڑے ہسپتال ایوب میڈیکل کمپلیکس کے بورڈ آف گورنرزکے چیئرمین اورسربراہ ہیں، گرینڈ ہیلتھ الائنس خیبرپختونخوا کے مرکزی عہدیدار ڈاکٹر عبدالماجد کے مطابق آج تک وہ ڈاکٹر اور نرسز کیا۔؟ ہسپتال کے کسی ملازم سے بھی نہیں ملے۔ ہزارہ کے اس بڑے ہسپتال میں پچھلے بارہ تیرہ روز سے ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف کی ہڑتال ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام بلکہ کوہستان، گلگت اور کشمیرتک کے ہزاروں و لاکھوں لوگ علاج معالجے کے لئے روزانہ رل رہے ہیں مگرکمپلیکس کے اس بادشاہ کو اس کی کوئی خبرہے اورنہ کوئی پرواہ۔ ڈاکٹر عاصم یوسف توکہیں اپنی مستی میں مست ہوں گے لیکن ان کی مستی کی وجہ سے ہزاروں ولاکھوں لوگ روزانہ عذاب سے گزر رہے ہیں۔بقول ڈاکٹر عبدالماجد کے پچھلے چندسالوں کے دوران صرف ایوب میڈیکل کمپلیکس میں ہزاروں ولاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے اپنی ذات ومفادکے لئے ہوا میں اڑائے گئے۔ اب آپ خود سوچیں۔ ایک ہسپتال کا یہ حال ہے باقیوں کاکیاانجام ہوگا۔؟ہم نے پہلے ہی کہاتھاکہ ایم ٹی آئی اورصحت انصاف کارڈیہ اصلاحات اورتبدیلی نہیں بلکہ کرپشن اورلوٹ مار کے وہ راستے ہیں جن کوبعدمیں بند کرنا یا روکنا آسان نہیں ہو گا۔ آج وہی خدشات حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ کپتان اور کپتان کے اناڑی کھلاڑیوں کے کارناموں سے تو معیشت کاجنازہ پہلے ہی نکل چکا تھا ان ہی کے کارناموں سے اب سرکاری ہسپتالوں کاجنازہ بھی نکل رہا ہے۔ کپتان تو جا چکے لیکن ان کی باقیات اب بھی اداروں میں موجود ہیں۔ اس گند کو اگر تمام اداروں، محکموں اورشعبوں سے صاف نہ کیاگیاتویہ ظالم صحت کاشعبہ اورسرکاری ہسپتال کیا۔؟ ہر قومی ادارے اورمحکمے کواسی طرح تباہ کرکے فاتحہ پڑھنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ اس سے پہلے کہ یہ کسی ادارے اورمحکمے کوتباہ کرکے فاتحہ پڑھیں ان کاکام تمام کرکے ان پرپہلے ہی فاتحہ پڑھناچاہئیے تاکہ ملک وقوم مزیدکسی آزمائش،پریشانی اور مصیبت سے دوچار نہ ہو۔

Leave a Reply