Yadon ky chrag

 یا دوں کے چراغ




 پشاور کا نا م سامنے آتے ہی یا دوں کے چراغ جلتے ہیں‘زیا دہ دور کی بات نہیں 50سال پہلے کی بات ہے 1973ءمیں پشاور کے سرائے آباد ہوا کرتے تھے اور صدیوں پرانی تہذیب کی علا مت سمجھے جا تے تھے۔ شام ہو تے ہی بازار وں میں آواز لگا نے والے ” سرائے “ کی آواز لگا تے تھے یہ وہ زما نہ تھا جب کوئی نیا ہو ٹل بنتا تو سائن بورڈ پر جلی حروف میں لکھا جا تا تھا کہ فلش سسٹم دستیاب ہے اور ایسے ہوٹل بہت کم بلکہ خال خال نظر آتے تھے ۔سرائے میں امانتیں رکھنے کا قابل اعتما د طریقہ ہو تا تھا۔ مسا فر کو صرف چار پا ئی ملتی تھی ،بڑے ہال اور بر آمدوں میں بٹگرام اور چترال سے لیکر ٹانک اور وزیر ستان تک کے مسافر کندھے سے کندھا ملا کر ہنسی خو شی رات گزارتے تھے‘مسا فر کی کوئی نجی زندگی نہیں تھی، پرائیویسی کا تصور نہیں تھا۔ جب میں شہر کے کسی بازار سے گذر تا ہوں تو ” سرائے ، سرائے “ کی آوازیں خیا لات میں سر سر اتی ہیں ، یہ وہ دور تھا جب پشاور میں پبلک ٹرانسپورٹ کا محدود نظا م تھا ۔گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس ( جی ٹی ایس ) ڈبل ڈیکر اور اومنی بسیں نمایاں تھیں ، بس کا کنڈکٹر گلے میں کا لا بیگ لٹکائے ہر مسا فر کے لئے ٹکٹ کاٹتا تھا ‘طالب علموں کا ٹکٹ آدھا ہو تا تھا۔ سٹوڈنٹ کا رڈ دکھا کر آدھے ٹکٹ کی سہو لت حاصل کی جا تی تھی، بس میں نشستیں بھر جا تیں تو مسا فر سیٹوں کے درمیان والی خا لی راہداری میں کھڑے ہو جا تے کلینر کی زبان میں یہ جگہ ”چمن “ کہلا تی تھی۔ شہر کے لو گوں میں تہذیب ، رکھ رکھا ﺅ اور شائستگی کا اعلیٰ معیار تھا کوئی سفید ریش چمن میں کھڑا ہوتا تھا تو چمن کے دونوں اطراف میں دو چار مسا فر اپنی نشستوں پر کھڑے ہوتے“ اس طرح معذور اور خا تون کے لئے خوشی سے جگہ خا لی کی جا تی تھی۔ پھر ویگنوں اور بسوں کا دور آیا ، ہم نے پشاور شہر میں کیفے کے کئی معانی اور مفا ہیم دیکھے۔ مشہور شاعر ابولکیف کا تخلص کیفی تھا ،شہر میں جدید ریسٹورنٹ کیفے کہلاتے تھے ۔اس دور میں ٹیلی وژن اور وی سی آر کا رواج نہیں تھا گرامو فون ریکارڈ کے ذریعے گانے سنا ئے جا تے تھے چائے کا آرڈر دیکر نوجوان ایک کا غذ پر کسی مقبول گیت کی فرمائش لکھ کر بھیج د یتے ،چائے آنے سے پہلے گیت سنتے تو چائے کا لطف دو بالا ہو جاتااس کے بعد کیفے کا نام انٹر نیٹ کی دکان کے لئے استعمال ہونے لگا اُس زما نے میں سینما ہال کو شہر میں تفریح کا واحد ذریعہ خیال کیا جا تا تھا۔ کوئی اچھی فلم لگ جا تی تو ٹکٹ ملنا بہت مشکل ہوجا تا ۔ٹکٹ گھر کی کھڑ کی پر ٹکٹ لینے والوں کا ہجوم ہو تا جس کو ٹکٹ ملتا اُسے خو ش قسمت تصور کیا جاتا تھا۔ ما ضی کی یا دوں میں کھو جا نے کی ایسی کیفیت کو انگریزی میں ”ناسٹلجیہ“ ( Nastalgia) کہا جا تا ہے اردو کے شاعر نے اسی کیفیت کو دو مصرعوں میں بیان کیا ہے یا د ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا ۔ہر بڑے شہر کا باسی اپنے شہر کی پرانی یا دوں کو سینے میں سجائے رکھتا ہے پشاور کے با سیوں کا بھی یہی شیوہ رہا ہے کسی کو گنج اور یکہ توت کی گلیاں یا د آتی ہیں کوئی اپنے آپ کو لاہوری اور ہشت نگری میں مشغول پا تا ہے، کوئی قصہ خوا نی اور چوک یا د گار کے گرد خیا لوں میں چکر لگا تا ہے تو کسی کو رامداس بازار ، نمک منڈی اور پیپل منڈی کی یا د ستاتی ہے۔

Leave a Reply