Bijli ki kami ya—-

بجلی کی کمی یا۔۔۔۔

ابھی تو گرمی سٹارٹ ہی نہیں ہوئی ۔ ابھی سے یہ حال ہے کہ چھت کا پنکھا نہیں لگا سکتے تو جب عین گرمی اپنے جوبن پر ہوگی تو اس وقت وہ لوگ جن کے ہاں یوپی ایس اور جنریٹر نہیں ہیں وہ کیا کریں گے ۔اپنے ہی پسینوں میں نہا لیں گے۔بجلی سے پانی ہے اور پانی سے برتن دھونا اور کپڑوں کی مشین لگانا ہے ۔سب دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے ۔گھر میں استری ہے اور دیگر کام ہیں جو سر کھا جاتے ہیں۔باہر دکانوں میں درزی رونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ انھوں نے عید کے لئے کام لیا ہوا ہے ۔جوڑے سی کر دینے ہیں۔ کچھ شہری تو عید سے پہلے ان دنوں جا کر درزیوں کے سر ہو جاتے ہیں کہ میرے جوڑے کی سلائی میں اتنی دیری کیوں ہے ۔مگر وہ جواب میں کہتے ہیںکہ صاحب کیاکریں آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی نہیں ہوتی۔ وہ کون سا طبقہ ہوگا جو بجلی کے غائب ہونے سے متاثر نہ ہوتا ہو۔کبھی بجلی جا رہی ہے او رکبھی آ رہی ہے۔یہ آنکھ مچولی جاری ہے۔حیرانی ا س بات سے ہے کہ ابھی تو گرمانے شروعات کی ہیں مگر سخت سردیوں میں جہاں بجلی کی کھپت گرمیوں جیسی نہیں ہوتی ان دنوں بھی بجلی غائب رہی ہے۔کمپیوٹر والے کے پاس جا¶ تو کہ میرے کام کاکیا ہوا ۔جواب ملتا ہے کہ بجلی نہیں ہے ۔جیسے ہی آئے آپ کا کام کرتاہوں ۔آپ پوچھیں بجلی کس وقت آئے گی۔ وہ فرمائیں گے کچھ پتا نہیں ۔ جانے کامعلوم ہے نہ توآنے کے اوقات معلوم ہیں۔کیونکہ صرف کمپیوٹر ہو توچلو وہ یو پی ایس پہ چل جاتا ہے ۔مگر مسلسل کام کرنا تو یو پی ایس کے اختیار سے باہر ہے او رپھر پرنٹنگ اور دوسرے مراحل اور بھاری مشینری کاچلنا از حد دشوار ہو جاتا ہے۔لوہار کے پاس جا¶ کہ یار لوہے کی سلاخ کٹر سے کاٹ دو مگر اتنے سے کام کے جواب میں کانوں کو یہ سننے کو ملے گا کہ بجلی نہیںہے۔ یعنی دیکھا جائے تو معمولات زندگی بجلی نہ ہونے کے باعث معطل ہیں اور لازمی طور پر اس کے ملکی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اچھے ہیں جو شادی ہال چلا رہے ہیں اور بھاری بھر کم جنریٹروں سے بجلی کو بذریعہ پٹرول یا گیس بحال کئے ہیں۔آخر ہمارے ہاں توانائی کا بحران کب تلک رہے گا ۔یہاں تو کوڑے سے بجلی بنانے اور گنے کے جوس کے پھوگ سے بجلی بنانے کا قصہ بھی سناتھا ۔ جو صرف قصہ کہانی کی حد تک ہی محدود رہ گیا ہے۔اگر ان منصوبے کو جلد از جلد پروان چڑھایا جاتا تو اب تک یہ بجلی کی کمی کا مسئلہ حل کرنے کا ذریعہ ثابت ہواہوتا۔ہاں کوئلہ سے بجلی بنانے کا ذکر بھی ہوا تھامگر وہ بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ کر دور جا گرا ہے۔ایسا کہ کوئلے کا جو ذخیرہ ہمارے پاس ہے وہ پچاس سال کے لئے بھی زیادہ ہے اور دوسرے ملکوں کو دینے کے لئے بھی وافر ہے ۔مگر جانے یہ اچھے آئیڈیا کون چرا لیتا ہے ۔ڈیم بنانے کے کئی منصوبے چل رہے ہیں تاہم اس پر کام کی رفتار سست ہے اورابھی تک کوئی ڈیم نہ بن سکا ۔ بجلی کی کمی کا سامنا تو عرصہ دراز سے ہے اگر اس مسئلے کا کوئی حل نیک نیتی سے ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی تو اب تک یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا تاہم لگتا ہے کہ بجلی کمی کی بڑی وجہ اس مسئلے کو حل کرنے کے حوالے سے نیک نیتی کی کمی ہے ،اگر وہ کمی پوری ہوجائے تو یہ کمی بھی خود بخود ختم ہوجائے گی۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کمی کسی چیز کی ہے قدرت نے ہمیں جس فروانی کے ساتھ پانی ، سورج کی روشنی اور دیگر تونائی کے ذرائع سے نوازا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے تو ہمیں اپنے ساتھ بہت سے دیگر ممالک کو بھی توانائی کی ضروریات کے ضمن میں مدد فراہم کرنا چاہئے تھا۔اگر صرف سورج کی روشنی سے حاصل ہونے والی توانائی کی بات کی جائے تو اس سلسلے میں اگر حکومت شمسی توانائی کے حوالے سے ہر گھرکو یہ سہولت حاصل کرنے میںمدد دے تو کوئی وجہ نہیں کہ نیشنل گرڈ پر دباﺅ میں کمی ہو اور ایک وقت آئیگا کہ بجلی کی فروانی ہی ہوگی اور کمی کا رونا کم بلکہ ختم ہوجائے گا۔یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کو بالکل ہی بجلی کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے بہت سے ایسے کام جو بغیر بجلی کے بھی ہوسکتے ہیں وہ بھی اگر ہم بجلی ہونے پر نہ کریں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیںتو قصو پھر کس کا ہے ۔




Leave a Reply