Budget bnany walo! awam ki sun lo zara

بجٹ بنانے والو! عوام کی سن لو ذرا

اگلے مالی سال کے بجٹ کی آمد میں محض چند دن ہیں، پچھلے چند دنوں میں بجٹ کے حوالے سے موصولہ اطلاعات کی حقیقت بجٹ پیش کئے جانے پر ہی واضح ہوگی، ابتدائی طور پر اطلاعات یہ ہیں کہ تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافہ زیر غور ہے جبکہ نان فائلر کے بینک اکائونٹس سے 50 ہزار روپے تک رقم نکلوانے پر ٹیکس لگانے کی تجویز بھی۔ گزشتہ روز قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں2709 ارب روپے کے حجم والے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی گئی، ترقی کا ہدف 3.5 فیصد رکھنے اور خواتین میں 22 ہزار سکوٹیز تقسیم کرنے کے ساتھ نوجوانوں میں اگلے مالی سال کے دوران ایک لاکھ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا بھی پروگرام ہے۔ قومی اقتصادی کونسل نے ملک بھر میں 8 بجے دکانیں اور شاپنگ مالز بند کرنے کی منظوری دی ہے، بتایا جا رہا ہے کہ اس اقدام سے سالانہ ایک ارب ڈالر کی صرف توانائی کی مد میں بچت ہوگی، دوسری طرف آئی ایم ایف کی جانب سے 4 ارب ڈالر کی فنانسنگ حاصل کرنے کی شرط کے حوالے سے خبر یہ ہے کہ 2 ارب ڈالر کا انتظام ہوگیا ہے جبکہ مزید 2 ارب ڈالر کا بھی اگلے چند روز میں انتظام ہو جائے گا، شام آٹھ بجے دکانیں اور شاپنگ مالز بند کرنے کے فیصلے کو تاجروں کی مختلف تنظیموں نے یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ موسم گرما میں صارفین شاپنگ کیلئے شام کے بعد نکلتے ہیں بظاہر یہ اعتراض خود غرضی سے عبارت ہے، پڑوس کے ملک بھارت میں کاروباری اوقات مقرر ہیں، اسی طرح جس ترقی یافتہ دنیا کی ہمارے یہاں اٹھتے بیٹھتے تعریف ہوتی ہے وہاں بھی کاروباری اوقات اس حساب سے ہیں کہ توانائی کی بچث ہو پائے، ہمارے ہاں چونکہ باوا آدم ہی نرالا ہے اجتماعی ملکی مفاد سے کسی کو دلچسپی نہیں، اصولی طور پر توانائی کے جس بحران کا ہمیں عشروں سے سامنا ہے اس کے پیش نظر نئے کاروباری اوقات موسم کے مطابق طے ہوکر نافذ ہونے چاہئیں تھے، موسم گرما میں صبح 8 سے شام آٹھ بجے اور موسم سرما میں صبح 9 بجے سے شام 8 بجے تک۔ سیاسی جماعتیں چونکہ ووٹروں کی ناراضگی سے خوفزدہ رہتی ہیں اس لئے کاروباری اوقات کے حوالے سے ماضی میں جتنے بھی فیصلے ہوئے بالآخر واپس لینے پڑے، اس بار بھی سپر حکومت ہی ڈالے گی، جہاں تک نان فائلرز کے بینک اکائونٹس سے رقم نکلوانے پر ٹیکس عائد کرنے کے ساتھ ان پر مختلف مدوں میں ٹیکس لگانے کی تجویز کا تعلق ہے تو یہ مناسب اس لئے نہیں کہ ہمارے ہاں عشروں سے اس غلط العام بات کی تکرار جاری ہے کہ لوگوں کی اکثریت ٹیکس نہیں دیتی حالانکہ زمینی حقیقت اس سے مختلف ہے، ماچس کی ڈبیہ تک پر عام صارف ٹیکس دیتا ہے درمیانہ درجہ کے ریسٹورنٹ میں 120روپے کے چائے کے کپ پر 20 روپے سیل ٹیکس دینا پڑتا ہے، ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہر کس و ناکس اپنی خریداری کی توفیق کے مطابق ٹیکس دیتا ہے، بجلی کے بلوں پر تو تین چار اقسام کے ٹیکس ہیں، سوئی گیس اور ٹیلیفون کے بلوں کے علاوہ موبائل فون کی تو فی کال پر صارف ٹیکس دیتا ہے اس کے باوجود یہ کہنا کہ اکثریت ٹیکس نہیں دیتی، سفید جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں، بنیادی طور پر تو حکومت کو یہ بتانا چاہئے کہ وہ ماچس تک پر ٹیکس دینے والوں کو کیا دیتی ہے جس طرح کی سہولتیں بجٹ میں سرمایہ دار طبقوں کیلئے رکھی جاتی ہیں، اس سے پچاس فیصد کم عام شہری کیلئے بھی ہیں؟ تعلیم، صحت اور روزگار بنیادی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے، پہلے دو شعبے ایک سازش کے تحت کاروباری طبقے کے حوالے کر دیئے گئے، گو سرکاری تعلیمی ادارے اور ہسپتال موجود ہیں مگر ان کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تعلیم کو کاروبار بنائے اکثر گروپوں نے اپنے میڈیا ہائوسز بنا رکھے ہیں، ان کے دبائو پر وہ آمدنی پر جائز ٹیکس نہیں دیتے مگر طعنہ ہمیشہ عام شہری کے حصے میں آتا ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتا، اس ضمن میں برسوں سے ایک تجویز مختلف حلقے پیش کرتے آرہے ہیں کہ حکومت قومی شناختی کارڈ کے نمبر کو نیشنل ٹیکس نمبر(این ٹی این) قرار دے دے تاکہ مختلف مدوں میں ٹیکس ادا کرنے والے سفید پوش شہری بھی آمدنی سے زائد ٹیکس ادا کرنے کا فائدہ لے سکیں، ملک میں پچھلے پانچ سال کے دوران مہنگائی جس رفتار سے بڑھی اس کا حساب بہت سادہ ہے، تحریک انصاف کے پونے چار سالہ دور حکومت میں پچھلے پچاس برسوں کے مقابلہ میں63 سے 80 فیصد مہنگائی میں اضافہ ہوا لیکن پی ڈی ایم کے برسراقتدار آنے کے بعد مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین شرح تک پہنچ گئی۔ فی الوقت صورت یہ ہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران صرف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں80 سے120 فیصد اضافہ ہوا، بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں کا بوجھ بھی ضروریات زندگی کی قیمتوں پر منتقل ہوا، اس طور عام آدمی دوہرے عذاب میں مبتلا ہے، افسوس کہ اس کیلئے کبھی کسی نے ہمدردی سے سوچنے اور اقدامات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، ارباب اختیار اور متعلقہ محکموں کی حالت تو یہ ہے کہ گزشتہ عرصہ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے پبلک ٹرانسپورٹ کے بڑھنے والے کرائے ایک ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے حساب سے کم نہیں کروائے گئے، خواتین میں سکوٹیز اور نوجوانوں میں ایک لاکھ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے پر اٹھنے والی رقم کو تعلیم اور صحت کے شعبہ میں مساوی طور پر تقسیم کیا جانا چاہئے، بڑھتی ہوئی آبادی کی بنیادی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کی جانی چاہئے، پنجاب سمیت دیگر صوبوں سے یہ شکایات ہیں کہ بعض محکموں میں تنخواہیں قسطوں پر دی جا رہی ہیں اور کچھ محکموں کے پنشنرز کو دو سے تین ماہ بعد پنشن ملتی ہے، ہماری دانست میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ مہنگائی کی حالیہ شرح کے حساب سے کیا جانا چاہئے، ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری کا احوال کسی سے مخفی نہیں، معاشی ابتری نے سیاسی عدم استحکام کی کوکھ سے جنم لیا ہے اسی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں عدم توازن کی شکایات ہیں انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ زراعت کا شعبہ ہمیشہ نظرانداز ہوا، حکومت آمدہ بجٹ میں اس شعبہ کو بطور خاص اہمیت دے، کھاد، بیجوں اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں کمی کرائی جائے، دیہاڑی دار مزدور کی یومیہ اجرت اٹھارہ سو روپے سے دو ہزار ہونی چاہئے، نجی شعبہ میں کم سے کم تنخواہ چالیس ہزار مقرر کی جانی چاہئے اور بجٹ پاس کرتے وقت اس امر کی بھی قومی اسمبلی منظوری دے کہ کم سے کم ماہانہ اجرت کے خلاف کوئی عدالت حکم امتناعی نہیں دے گی، جیسا کہ پچھلے برس سندھ میں مقرر کی گئی کم سے کم اجرت پر سرمایہ داروں نے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی لے لیا تھا، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لئے حکومت اور نجی شعبہ دونوں کو کردار ادا کرنا ہوگا، حکومت کاٹیج انڈسٹری کے فروغ کیلئے خصوصی مراعات اور بلاسود قرضے دینے کا پروگرام بنائے، فنی تعلیمی اداروں کے قیام کو تحصیل کی سطح تک لازمی قرار دیا جائے، امید واثق ہے کہ آمدہ بجٹ کے حوالے سے مندرجہ بالا معروضات پر ہمارے ارباب اختیار اور پالیسی ساز ضرور غور کریں گے۔




Leave a Reply