Haqiqi azadi ky drum

حقیقی آزادی کے ڈرم

ان دنوں ہر طرف بیرسٹر علی ظفر کے دلائل کا شہرہ ہے۔ دلائل کیا دیتے ہیں، مسحور کر دیتے ہیں۔ معزز بنچ ان کے دلائل پن ڈراپ سائلنس کے دوران سنتا ہے اور اس کی کیفیت اس شعر کی طرح ہو جاتی ہے کہ 




’دیکھ استدلال کی قوت‘ کہ جو اس نے کہا

’حکم‘ نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی اپنے دل میں ہے

بیرسٹر صاحب کا مقدمہ فی المعنی یہ ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام نہیں، ا سے روکا جائے۔ قانون سازی جس کا کام ہے، جس کا اختیار ہے، اسی کو کرنے دیا جائے۔ ایک سماعت کچھ اور اپیلوں کی تھی جس کے وکیل بیرسٹر صاحب نہیں تھے اور انھیں نوٹس بھی نہیں گیا تھا لیکن وہ استدلال ہی کی قوت تھی کہ اپیل کنندگان کان کی طرف سے بولنے کا اختیار انھی کو، ان کے بنا مانگے دیا گیا اور پھر وہی ماجرا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔

………………..

بیرسٹر صاحب کے اس استدلال کی اس قدر اثرانگیز ناقابل مزاحمت قوت کہاں سے آئی۔ اس کا جواب موجود ہے۔ انھوں نے یہ صلاحیت اپنے عظیم والد گرامی جناب ایس ایم ظفر سے ورثے میں پائی۔ کون ہے جو ایس ایم ظفر صاحب کی شخصیت اور ان کے ساراے کارناموں سے واقف نہ ہو۔ آپ کا پہلا سنہری دور ایوب خان کے سنہری دور پر محیط تھا۔ آپ قانون کی بالادستی کے سفر میں ایوب خان کے ہمسفر رہے۔ پھر بنیادی حقوق اور قانون کی بالادستی میں آپ نے یحییٰ خان، بعدازاں ضیاءالحق خان اور مزید بعدازاں مشرف خان کا بھی ساتھ دیا۔ آپ نے اپنی سنہری خدمات کی تفصیل اپنی دو کتابوں میں بھی بیان کی ہیں جو آئین کی حکمرانی، دو نہیں، ایک قانون، حقیقی آزادی کے متوالوںکے لیے سرمایہ¿ جاں ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب کا نام ’میرے مشہور مقدمے‘ ہے۔ اس میں بتائی گئی تفصیل ان کی قول استدلال پر دال ہے۔

………………..

ایس ایم ظفر نے ایک مقدمہ نورجہاں عرف ملکہ ترنم کا بھی لڑا، اس کی تفصیل بھی اس کتاب میں لکھی ہے۔ ملکہ ترنم پر کسی نے استغاثہ کیا۔ ایس ایم ظفر ان کی طرف سے عدالت پیش ہوئے اور کہا کہ ملکہ ترنم ایک باپردہ خاتون ہیں، عدالت میں پیش ہونے سے بے پردگی کا خطرہ ہے۔ اس لیے انھیں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ استغاثہ کرنے والے وکیل نے کہا کہ ملکہ ترنم اداکارہ اور رقاصہ ہیں، ہر روز سینماﺅں میں ان کی فلمیں چلتی ہیں (یہ بطوراداکارہ ان کے عروج کا زمانہ تھا) اور لاکھوں فلم بین ان کے دلکش رقص مزے لے لے کر دیکھتے ہیں۔ پردہ نشینی کے دعوے کا کیا مطلب ہوا؟شہنشاہ استدلال ایس ایم ظفر نے کہا کہ ناچنا گانا میری موکلہ کا پیشہ اور ذریعہ روزگار ہے، گھر میں وہ پردہ کرتی ہیں۔ دلیل مضبوط اور ناقابل شکست تھی۔ مجسٹریٹ صاحب نے فوراً ہی استثنیٰ دیدیا۔ ملاحظہ فرما لیا، یہی بے مثال قوت استدلال ان کے فرزند دلبند کو بھی ورثے میں ملی۔

…………….

ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ نیب اور انٹی کرپشن کے وہ ملزم جو آئے روز سزا پاتے اور جیل کی ہوا کھاتے ہیں، بیرسٹر صاحب کی خدمات حاصل کر لیں تو کبھی جیل کا منہ نہ دیکھیں،پہلی پیشی پر ہی باعزت بری ہوکر ناچتے گاتے ڈھول بجاتے گھروں کو لوٹیں۔ استدلال یہ ہوگا کہ می لارڈ، یہ چوری چکاری تو میرے موکل کا پیشہ اور ذریعہ روزگار ہے، گھر کے اندر میرا موکل نہایت دیندار، نہایت دیانتدار، نہایت پرہیزگار، تہجد گزار اور نہ جانے کون کون سا گزار ہے۔

………………..

فارمیشن کمانڈرز نے چار روز اجلاس کیا۔ پاکستان میں شاید پہلی بار ایسا ہوا۔ اجلاس کے بعد ایک سخت ترین الفاظ والا اعلامیہ جاری ہوا جس کے بعد ہر کس و ناکس کو یقین ہو گیا کہ 9 مئی کے ذمہ داروں، سہولت کاروں کو سخت سزا ملے گی۔ رعایت کی گنجائش پر سرخ کاٹا لگا دیا گیا۔ اجلاس کے اندر کی کہانی کے بعض اجزاءبھی کچھ باخبر لوگوں کو پہنچ گئے ہیں۔ ایک ایسا بھی ’جزو‘ مجھ تک بھی پہنچا بلکہ بہت سوں تک پہنچا اور ان بہت سوں میں سے ایک مجھے بھی سمجھ لیجیے۔ یہ کہ بہت سے ثبوت اداروں کو ایسے ملے ہیں کہ ’پبلک‘ کردیے جائیں تو سارا ملک پینک روم (Panic Room) میں تبدیل ہو جائے، لہٰذا یہ ثبوت مشتہر نہیں کیے جائیں گے۔ عدالت کے سامنے رکھے جائیںگے۔ ان میں سے ایک ثبوت ایسا ہے جو کم خطرناک ہے۔ زیادہ پینک نہیں پھیلے گی جو ’ذرائع‘ کو دیدیا گیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے چاہیں تو آگے پھیلا سکتے ہیں۔

خلاصہ اس ثبوت کا یہ ہے کہ جب چار پانچ سو یا شاید اس سے کچھ زیادہ میانوالی ایئربیس ’فتح‘ کرنے پہنچے تو ان کے ہمراہ دو سو مسلح افراد تھے اور ان میں خاصی تعداد ہمسایہ ملک کے ان مہاجرین کی تھی جو ایک سرحدی صوبے کے مہاجر کیمپوں کے مکین ہیں۔ (سرکاری کاغذات کی حد تک عملاً غیرقانون رہائشی کالونیوں میں رہتے ہیں اور تازہ خبر یہ ہے کہ اسلام آباد میں ان غیرقانونی کالونیوں پر چھاپے مارے گئے ہیں اور سینکڑوں کو پکڑ لیا گیا ہے۔) ان کے ہمراہ پک اپ والے ڈالے تھے، درجنوں کے حساب سے اور ان سب میں پٹرول کے ڈرم رکھے ہوئے تھے۔ شاید چراغاں مقصد ہو۔ اس گروہ کے کچھ ناقدین کہیں اور سے رابطے میں تھے، انھیں بتایا جا رہا تھا کہ ایئرفیلڈ کی دیواروں کو فلاں فلاں مقام سے توڑنا ہے، بے خطر ہوکر توڑو، اندر گھس جاﺅ، ڈرم ساتھ لو اور ایک بھی نہیں چھوڑنا۔ ایک بھی نہیں چھوڑنا سے کیا مراد تھی، واضح طورپر طیاروں کا ذکر ہو رہا تھا، لیکن ہوا یہ کہ ایمرجنسی میں حفاظتی بندوبست کرنے والوں نے ایسی جان لڑائی کہ حقیقی آزادی کے مجاہد دیواروں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکے اور پٹرول کے ڈرم کسی کام میں نہ لائے جاسکے

حیرت ان ”ڈرموں“ پر یہ ہے جو بن کھلے ہی رہ گئے

اب آگے کیا ہونے والا ہے یہ جاننے کے لیے کوئی ’روحانیاتی‘ سائنس جاننے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply