Social media ka manfi istemal

سوشل میڈیا کا منفی استعمال




پہلے بھی موبائل فون کی تباہ کاریوں پہ لکھ چکی ہوں، لیکن ایسا لگتا ہے جیسے ماؤں نے اپنی اولاد کو ’’پاکیزہ‘‘ کردار کا مالک سمجھ کر ان کے ہاتھوں میں یہ مہلک ہتھیار دے دیا ہے، ہے تو یہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے ایک مہلک ہتھیار، لیکن یہاں وہی مثل صادق آتی ہے کہ ’’چھری خربوزے پہ گرے یا خربوزہ چھری پر، نقصان بہرحال خربوزے کا ہی ہونا ہے‘‘۔

ہماری سوسائٹی کا سیٹ اپ کچھ ایسا ہی ہے کہ لڑکے اور مرد ہر جرم کرنے کے بعد صاف بچ نکلتے ہیں، خاص کر لڑکیوں کے معاملے میں۔ 13 سے 19 سال کی عمر بہت اہم ہوتی ہے۔

اس عمر میں لڑکوں اور لڑکیوں میں چاہے جانے کا احساس جنم لیتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ جب موبائل فون اور فیس بک نہیں تھا تب لڑکے اور لڑکیاں بگڑتی نہیں تھیں۔

اس دورکے اپنے تقاضے تھے، ایک تو کو ایجوکیشن نے بھی خاصی تباہی مچائی تھی، کراچی کے ایک اسکول میں آٹھویں جماعت کے ایک لڑکے اور لڑکی نے اپنی پسند کی شادی کے لیے والدین پر زور ڈالا، لیکن والدین نے منع کردیا کہ دونوں دو مختلف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے، پھر عمریں ان کی بہت کم تھیں، لیکن ہمارے ٹی وی ڈراموں اور انڈین فلموں نے نوجوانوں کو پسند کی شادی کی طرف لگا دیا ہے، پھر وہ گھر سے بھاگیں یا والدین کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجائیں، ان دونوں نے بھی یہی کیا، باوجود کچی عمروں کے ماں باپ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور جب دونوں خاندانوں نے منع کردیا تو دونوں نے خودکشی کرلی۔

یہ واقعہ اخبارات میں کئی دن تک رپورٹ ہوتا رہا، لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں، اسی طرح تقریباً 1990 کی دہائی کی بات ہے کہ ہمارے کالج میں ایک مشاعرہ ہوا، میں اس کی انچارج تھی اور خاصے معروف شعرا کو بلایا تھا، طالبات کو کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ آئیں کیونکہ مشاعرہ رات نو بجے تک ختم ہونے کا امکان تھا، اس کے بعد ڈنر تھا، یونین کی عہدیدار لڑکیاں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں۔

ان میں ایک لڑکی تھی جو بی اے پارٹ ون کی طالبہ تھی، اور خاصی خوش شکل بھی تھی، وہ میرے ساتھ ساتھ تھی کہ اردو ایڈوانس کی طالبہ بھی تھی اور بزم ادب کی نائب صدر بھی۔ مشاعرہ نو بجے سے پہلے ختم ہو گیا، لڑکیاں چلی گئیں، ہم پروفیسرز بھی رات دس بجے وہاں سے نکل آئے، تقریباً رات گیارہ بجے لینڈ لائن فون پر چوکیدار کا فون آیا کہ اس لڑکی کے والدین کالج آئے ہیں، وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچی۔ میں نے ان سے بات کر کے بتایا کہ ہماری موجودگی میں تمام طالبات والدین کے ساتھ گھر چلی گئی تھیں، ہم لوگ سب کو بھیج کر آئے ہیں۔

اس پر اس لڑکی کی والدہ روتے ہوئے بولیں کہ ’’ وہ تو اکیلی آئی تھی ‘‘ اس نے کہا تھا کہ ’’ مس کلثوم اسے گھر چھوڑ دیں گی‘‘ ورنہ ہم اسے اکیلے نہ آنے دیتے۔ یہ سن کر میں بہت پریشان ہوگئی،کالج گھر سے بہت زیادہ دور تھا اور ساری ہی پروفیسرز دور دراز علاقوں میں رہتی تھیں، کسی طرح صبح ہوئی اور ہم لوگ تقریباً 10 بجے کالج پہنچے تو اس لڑکی کے والدین پھر وہاں موجود تھے، سارا کالج اور ساری پروفیسرز پریشان تھیں کہ وہ گئی کہاں، پھر کسی نہ کسی طرح اس کے ساتھ وین میں جانے والی لڑکی نے انکشاف کیا کہ گم ہونے والی لڑکی کا چکر وین ڈرائیور کے ساتھ چل رہا تھا، وین ڈرائیور کا انتظار کیا گیا لیکن وہ نہیں آیا۔

اس نے اپنی جگہ کسی اور کو بھیج دیا تھا۔ اب کیا کریں؟ بہرحال والدین کو مشورہ دیا گیا کہ وہ تھانے جا کر لڑکی کی گم شدگی کی رپورٹ لکھوائیں، پولیس فوراً حرکت میں آگئی، ڈرائیور کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تو وہ وہاں نہیں تھا، پولیس الرٹ ہوگئی تھی، اس نے ماں اور بہن کو اپنے طریقے سے دھمکایا تو انھوں نے اگل دیا کہ وہ تو رات کو ہی نکاح کرچکے ہیں۔

ماں باپ یہ سن کر روتے پیٹتے واپس آگئے۔ بعد میں پتا چلا کہ دو تین دن بعد وہ لڑکی اور ڈرائیور گھر آئے اور دونوں نے معافی مانگی اور مطالبہ کیا کہ والدین لڑکی کو عزت سے رخصت کردیں، لیکن باپ نے اسے فوری طور پر گھر سے نکل جانے کو کہا، وہ چلی گئی، لڑکی کھاتے پیتے گھرانے کی تھی جب کہ ڈرائیور اس کے برعکس تھا اور ایک دو کمروں کے گھر میں رہتا تھا، ماں باپ نے اس لڑکی سے قطع تعلق کرلیا، جب ڈرائیور نے دیکھا کہ اب اسے لڑکی کے گھر والوں سے کچھ ملنے کی امید نہیں ہے تو اس کا رویہ بدل گیا اور چند ماہ بعد جب لڑکی حاملہ تھی تو اسے گھر سے نکال دیا، وہ ماں باپ کے گھر روتی پیٹتی آگئی اور پھر ایک بچے کو جنم دے کر طلاق لے کر بیٹھ گئی۔

آج مجھے یہ سب اس لیے یاد آ رہا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں اکثر نوجوانی میں بہت سی غلطیاں کرتے ہیں، لیکن اب ان باتوں کا تناسب بہت بڑھ گیا ہے، ایک اور ہولناک واقعہ میرے علم میں آیا، لڑکی رو رو کر فریاد کر رہی تھی لیکن اس کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا، وہ بھی ماں بننے والی ہے، لیکن بے یار و مددگار، بے سہارا، فیس بک اور یہ موبائل پتا نہیں ابھی اور کتنی زندگیوں کو نگلیں گے؟ کتنی لڑکیاں پسند کی شادی کے چکر میں گھروں سے بھاگیں گی؟ خدارا اپنی بیٹیوں کو آگاہی دیجیے انھیں بتائیے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔

اور یہ کہ گھروں سے بھاگنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ مذکورہ لڑکی کا تعلق سرگودھا سے ہے، وہ نویں جماعت کی طالبہ تھی جب فیس بک پر اس کا رابطہ ایک لڑکے سے ہوا، لڑکے نے اسے اپنی تصویریں بھیجنے کو کہا جو اس نے فوراً ہی بھیج دیں۔

اس لڑکی کے بھائی کچھ غنڈے ٹائپ کے اور بدمعاش ہیں، یہ بات لڑکی نے خود رو رو کر بتائی ہے، جب لڑکے کو تصویریں مل گئیں تو اس نے ملاقات کے لیے کہا، اس لڑکی کی عمر صرف 16 سال ہے اس نے اپنی سہیلیوں سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ ’’مل لو، بعد میں اچھا لگے تو ملتی رہنا۔‘‘ سو نادان دوستوں کے مشورے کے بعد لڑکی لڑکے سے ملنے گئی اور یہ ملاقاتیں بڑھتی گئیں، تب لڑکے نے کہا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔

وہ بہت امیر گھرانے کا لڑکا ہے لیکن اس کے گھر والے شادی کے لیے نہیں مانیں گے۔ لڑکی نے کہا کہ اس کے بھائی تو بدمعاش ہیں وہ بھی نہیں مانیں گے، تب دونوں نے گھر سے بھاگنے کا پروگرام بنایا، لڑکی نے گھر سے دو لاکھ روپے چرائے اور سارا زیور اپنے ساتھ لیا اور اس لڑکے کے ساتھ لاہور آگئی۔

لاہور میں لڑکے نے اسے ہوٹل میں رکھا، تمام زیور اور روپیہ اس نے ہتھیا لیا، پھر کچھ دن بعد وہ اسے مری لے گیا، یہ وہاں رہے، پھر واپس لاہور آئے وہاں ایک ہاسٹل میں رہے، اس عرصے میں کئی بار لڑکی نے نکاح کرنے کو کہا تو اس نے ٹال دیا، اور پھر جب وہ ماں بننے والی تھی تو وہ اسے لاہور میں چھوڑ کر فرار ہو گیا، لڑکی اب لاہور میں ہے اور مدد کے لیے سوشل میڈیا پہ لوگوں کو پکار رہی ہے، پتا نہیں اس کی فریاد کسی نے سنی یا نہیں؟

یہ بات کیونکر خواتین کو سمجھائی جائے کہ جب وہ اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے ہاتھ میں موبائل فون کا مہلک ہتھیار تھما کر بے فکر ہو جاتی ہیں تو وہ خود اپنا کتنا بڑا نقصان کر رہی ہوتی ہیں، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ماؤں نے فیس بک کی دوستیوں کے نقصانات اور ہولناک نتائج سے اپنے بچوں کو آگاہ کیا ہو، کچھ عرصہ قبل اسکول اور کالجوں میں موبائل لانے پر پابندی تھی، ایک بار ہم پروفیسرز نے لڑکیوں سے ان کے موبائل لے لیے، ان میں موجود نمبروں پہ جب ایک لیکچرر نے رابطہ کیا تو ہر نمبر کسی نہ کسی لڑکے کا تھا۔

لڑکیوں کے مطابق وہ ان کے کزن کے نمبر تھے، موبائل رکھ لیے گئے، اگلے دن ماؤں کو بلایا گیا تو بیشتر مائیں تو شرمندہ ہوئیں، بعض شکر گزار بھی ہوئیں، لیکن دو خواتین ہم پر ناراض بھی ہوئیں، یہ بہت الٹرا ماڈرن خواتین تھیں، ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے خود اپنی بیٹیوں کو موبائل لے کر دیے ہیں، اس لیے وہ اس پر کس سے باتیں کرتی ہیں۔

ہمیں پوچھنے کا کوئی حق نہیں، اسی سوچ کی مالک خواتین اپنی بیٹیوں کو بے جا آزادی دے کر سمجھتی ہیں کہ وہ ترقی پسند ہیں اور اپنی اولاد کی پرورش نہایت شاندار طریقے سے کر رہی ہیں، یہیں سے خرابی پیدا ہوتی ہے، لڑکیاں بوائے فرینڈز بناتی ہیں، پیزا پوائنٹ اور برگر شاپ پہ ان سے ملتی ہیں، پھر ایک دوسرے میں کشش محسوس ہوتی ہے اور پھر اکیلے میں ملنے کی پلاننگ کی جاتی ہے۔

اس مقصد کے لیے ہوٹل استعمال کیے جاتے ہیں، بعض اوقات نازیبا تصاویر بنا کر بلیک میل بھی کیا جاتا ہے، جس کے ہولناک نتائج نکلتے ہیں، معاشرے میں ہر طرف بگاڑ پیدا ہو چکا ہے، لیکن نوجوان لڑکیوں کو سمجھانے والا کوئی نہیں یا یہ کہ وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتیں، جب آنکھ کھلتی ہے تو سب کچھ لٹ چکا ہوتا ہے، پھر ان کی کہانیاں سوشل میڈیا پہ گردش کرتی ہیں۔

Leave a Reply