Yan’an mn chairman mao ka ghar

Yan’anمیں چیئرمین مائو کا گھر




چین کی ترقی قابل دید ہے۔ لیکن چینی حکام ہمیں Yan’anمیں چینی انقلاب کے لیڈر چیئرمین ماؤ کے گھر بھی لے کر گئے۔ چئیرمین اپنے پانچ قریبی ساتھیوں جنہں ان کے سیکریٹریز بھی کہاجاتا ہے کے ساتھ یہاں رہتے رہے ہیں۔

چیئرمین ماؤ کے ان ساتھیوں میں چواین لائی بھی شامل تھے۔ چیئرمین ماؤ1943سے 1945کے درمیان اس گھر میں رہے ہیں۔ اور چینی انقلاب کی بہت کامیابیاں ان کے اسی دور کے دوران یہاں ہوئی ہیں۔ ان میں once Colation حکومت بھی یہیں بنائی گئی تھی۔ اس جگہ کو اس کی اصل حالت میں بحال رکھا گیا ہے۔ چین میں چیئرمین ماؤ سے عقیدت رکھنے والے بڑی تعداد میں روزانہ یہاں آتے ہیں۔

یہ ایک کھلا احاطہ ہے۔ جس کے چاروں طرف کھلا علاقہ ہے۔ جب کہ پانچ گھر پانچ غاروں کی شکل میں ہیں۔ ان کو غاریں ہی کہا جاتا ہے۔ چیئرمین ماؤ کی غار میں ان کے استعمال کا ذاتی فرنیچر ابھی موجود ہے۔ ایک ٹیبل ہے جس پر بیٹھ کر وہ کام کرتے تھے۔ ایک بیڈ ہے۔ جہاں سوتے تھے۔ ایک کپڑے رکھنے والی الماری بھی تھی۔

اسی طرح باقی پانچ سیکریٹریز کے گھر بھی تھے۔ چینی انقلاب کی فوج کے بھی یہیں اجلاس ہوتے تھے۔ شام کو چیئرمن ماؤ کھلے علاقہ میں اپنے لوگوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ جگہ کی سادگی آج بھی بتا رہی ہے کہ انقلاب سادہ جگہوں سے نکلتا ہے۔ عالیشان گھروں سے انقلاب نہیں نکل سکتا۔

چیئرمین ماؤ کے گھر کی سیر کے بعد چینی حکام کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کے صحافیوں کے اس وفد کے لیے کلچرل شو کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ جس میں چین کی روایتی موسیقی اور رقص پیش کیا گیا۔ یہ وہی موسیقی اور رقص تھا جو چیئرمین ماؤ بھی دیکھتے تھے۔ چین کے لوگوں کے لیے یہ جگہ کافی مقدس حیثیت رکھتی ہے۔

چینی اسکول کے بچے بھی یہاں آتے ہیں۔ آج چین کی جو شکل ہے یقین نہیں آتا اس کی بنیاداس جگہ سے نکلی ہے۔ کوئی خاص فرنیچر نہیں۔ کوئی خاص برتن نہیں۔ کوئی خاص کپڑے نہیں۔ غربت نظر آتی ہے۔ کن حالات میں چیئرمین ماؤ نے کام کیا۔

وہ اس جگہ سے صاف نظر آرہا تھا۔ گھر کے ساتھ صحن میں ایک درخت ہے بتایا جاتا ہے کہ شام کو چیئرمین ماؤ اس درخت کے نیچے بیٹھ کر ملاقاتیں کرتے تھے۔ جب ملاقاتیوں کی تعداد بڑھ جاتی تو باہر کھلے باغ میں ملتے تھے۔ انھوں نے اپنی بیماری بھی یہی کاٹی ہے۔

بیماری میں وہ گھر کے ساتھ ہی ایک کمرے میں منتقل ہو گئے۔ جہاں انھوں نے اپنی بیماری کے ایام گزارے۔ مین گیٹ پر چیئرمین ماؤ کے ان کے پانچ سیکریٹریز کے ساتھ مجسمے لگائے گئے ہیں۔ جہاں اس گھر کی تاریخ چینی اور انگریزی زبان میں لکھی ہوئی ہے۔

Yan’anمیں زراعت نے بھی بہت ترقی کی ہے۔ ہمارے چینی میزبان ہمیں مختلف زرعی علاقوں میں بھی لے کر گئے۔ ہمیں ایک ایسے علاقہ کا بھی دورہ کروایا گیا جہاں سیب کے بہت سے باغ تھے۔ یہاں مختلف اقسام کے سیب لگائے گئے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق چار سو اقسام کے سیب اس علاقے میں لگائے گئے ہیں۔ یہاں سیبوں کو برآمد کرنے کے لیے بڑی فیکٹری بھی لگائی گئی ہے۔ جہاں سے سیب پیک کر کے دنیا بھر میں چین سے برآمد کیے جا رہے ہیں۔ یہاں میں نے ای کامرس کا بھی بہترین استعمال دیکھا۔ لائیو سیب بیچے جا رہے تھے۔

لوگوں کو لائیو سیب دکھائے جاتے اور آرڈر بک کیے جا رہے تھے۔سیب کے جوس سیب کے چپس سمیت متعدد اشیا کی فیکٹریاں بھی یہیں لگائی گئی تھیں۔ سیب کا یہ علاقہ قابل دید تھا۔ یہاں سولر بھی لگایا گیا جو سیب کے باغوں اور علاقہ کو توانائی فراہم کر رہے ہیں۔

ان سولر پارکس کے اندر مشروم کے پودے بھی نظر آئے۔چین نے ہر علاقہ کی زراعت کو وہاں کے ماحول کے حوالے سے ترقی دی ہے۔ جہاں جو فصل بہترین ہو سکتی ہے وہاں اسی فصل کے لیے سہولیات اور میکنزم بنائے گئے ہیں۔

ہمیں چینی تاریخ سے آشنائی کے لیے اس میوزیم بھی لیجایا گیا جہاں چینی بادشاہت کے مختلف ادوار کی نایاب چیزیں موجود تھیں۔ ہر دور کی اپنی ہی ایک الگ شکل تھی۔ چینی بادشاہت کے چودہ ادوار رہے ہیں۔ ان میں چین میں جنگ بھی رہی ہے اور امن بھی رہا ہے۔

عام برتنوں سے سونے چاندی کے برتن بھی یہاں موجود تھے۔ بادشاہ کہیں کے بھی ہوں سونے چاندی سے ان کی محبت یکساں نظر آتی ہے۔

چینی بادشاہت میں بھی مہنگے برتن اور زیورات نظر آتے ہیں۔بڑی بڑی افواج ہی بادشاہ کی طاقت سمجھی جاتی ہیں۔ بادشاہ اپنے مرنے کے بعد اپنے مقبروں کے لیے بھی چیزیں اپنی زندگی میں ہی تیار کرواتے تھے۔ بہت سی قیمتی اشیا بادشاہوں کے مقبروں سے بھی لائی گئی ہیں۔ بادشاہوں کا موت کی زندگی کے بعد کا یقین بھی نظر آیا۔

بیجنگ میں بھی ہمیں ایک Temple of Heaven لیجایا گیا تھا۔ جہاں بادشاہ سال میں ایک دفعہ اپنی ریاست کی خوشحالی اور ترقی کے لیے دعا کے لیے آتے تھے۔ بادشاہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہاں آتے اور کئی کئی دن عبادت کرتے۔ اس ٹمپل کے ساتھ بھی ایک بڑا باغ تھا۔ بادشاہ کی عبادت کے لیے الگ جگہ مختص تھی۔

جہاں اور کوئی نہیں جا سکتا تھا۔ بادشاہ جس راستے سے عبادت کے لیے جاتا تھا وہ راستہ بھی کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ چین کے اس دورے کا واحد دکھ یہی ہے کہ دیوار چین جانے کا موقع نہیں مل سکا۔ بیجنگ میں شیڈول اس قدر سخت تھا کہ وقت ہی نہیں تھا۔

چین میں دن صبح ساڑھے ساتھ بجے شروع ہو جاتا تھا۔ ناشتہ ساڑھے چھ بجے سے ساڑھے سات بجے تک تھا۔ اور رات کا کھانا شام ساڑھے چھ بجے سے ساڑھے ساتھ بجے تک کھا لیا جاتا ہے۔ ہم تو دن صبح نو بجے شروع کرنے کے عادی ہیں۔ لیکن چین میں دن ساڑھے سات بجے شروع ہو جاتا ہے۔ چینی دن کی روشنی میں کام کرنے کے عادی ہیں۔

مارکیٹیں رات کو جلدی بند ہو جاتی ہیں۔ رات گئے تک دکانیں کھلی رکھنے کا کوئی رحجان نہیں ہے۔

چین کے عام آدمی کو باہر کی دنیا کا کچھ خاص علم نہیں۔ وہاں مغرب کی دنیا کا سوشل میڈیا نہیں ہے۔ آپ یقین کریں چین پہنچ کر میں بھی باہر کی دنیا سے کٹ ہی گیا۔

نہ واٹس ایپ نہ فیس بک نہ ٹوئٹر اور نہ ہی جی میل گوگل وہاں چلتا ہے۔ اس سب کے بغیر بھی دنیا دیکھنی ہے تو چین جائیں۔ چین کے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل ہیں۔ واٹس ایپ کی جگہ وی چیٹ ہے۔ یوٹیوب کی جگہ بلی بلی ہے۔ ان کا ٹک ٹاک بھی باقی دنیا سے الگ ہے۔ عام چینی کا باقی دنیا کے سوشل میڈیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہمارے دورے کا آخری شہر ارمچی تھا۔ ارمچی پاکستان کے قریب ہے۔ وہاں کی ساٹھ فیصد آبادی مسلمان ہے۔

ارمچی سے اسلام آباد قریب ہے بیجنگ دور ہے۔ بیجنگ اور ارمچی کے وقت میں بھی دو گھنٹے کا فرق ہے۔ لیکن لوگ دفتری اور سرکاری کام بیجنگ ٹائم سے ہی کرتے ہیں۔ لوکل ٹائم سے کوئی کام نہیں ہوتا۔ ارمچی کی زبان اوگر ہے۔ لیکن یہ لکھی تو اردو جیسی ہی جاتی ہے۔ لیکن اردو سے فرق ہے۔ یہ یہاں کی مقامی زبان ہے۔

Leave a Reply