Allama Iqbal open university : behtreen qomi talemi idara

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی: بہترین قومی تعلیمی ادارہ




علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی پاکستان کی بہترین یونیورسٹی قرار دے دی گئی ہے معیار تعلیم کی عالمی رینکنگ میں معیار تعلیم کے حوالے اوپن یونیورسٹی دنیا میں 25ویں جبکہ پاکستان میں اولین پوزیشن کی حامل قرار دی گئی ہے۔ دنیا میں لوگوں کی رہنمائی کے لئے ڈیٹا کی بنیاد پر یونیورسٹیوں کو جانچنے اور انکی رینکنگ کرنے والے عالمی ادارے ٹائمز ہائیر ایجوکیشن نے 2023 کی رینکنگ جاری کر دی ہے اس میں دنیا کی 1799 یونیورسٹیاں شامل تھیں جبکہ پاکستان سے اس مقابلے میں نجی و سرکاری شعبے کی 66 یونیورسٹیاں شامل تھیں یہ عالمی ادارہ، اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حوالے سے دنیا کی یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی کا تعین کرتا ہے زیرنظر رپورٹ میں 104 ممالک کی 1799 یونیورسیٹیاں شامل کی گئی ہیں جبکہ 13 معیارات کے تحت ان یونیورسٹیوں کو جانچا گیا اور پھر انکی درجہ بندی کی گئی۔ ادارہ یہ کام 50 سال سے کر رہا ہے۔
علامہ اقبال یونیورسٹی کا پاکستان کی بہترین یونیورسٹی قرار دیا جانا، ایک بہت بڑا اعزاز ہے پاکستان کے نظام تعلیم کے بارے میں عمومی تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ یہ ایسا ہی ہے اس میں کچھ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی نظام تعلیم نے ہزاروں نہیں لاکھوں ایسے انجینئر، ڈاکٹر، کاریگر/ہنرمند، سائنسدان ٹیکنالوجسٹ و دیگر علوم و فنون کے ماہرین پیدا کئے ہیں جو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک خدمات سر انجام دے رہے ہیں گزرے مالیاتی سال کے دوران پاکستان نے 70 ارب ڈالر انہی پاکستانیوں سے زرمبادلہ کی شکل میں وصول کئے یہ الگ بات ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے اخراجات 104 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے اور اس طرح ہمیں 43 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ہندوستان کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں ہندوستانیوں کی کامیابیوں کے قصے بڑھا چڑھا کر پیش کئے جاتے ہیں ویسے ان واقعات حقیقت بھی ہوتی ہے۔ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن کی صنعت میں گوگل کے غالب مقام سے کون واقف
نہیں ہے گوگل اس صنعت میں قائدانہ مقام پر فائز ہے گوگل گروپ کا چیف ایگزیکٹو سندر پیچائی ایک ہندو اور ہندوستانی ہے اس کی داستان حیات بڑی قابل رشک ہے۔ برطانوی وزیراعظم بھی ہندو اور بھارتی نژاد ہے، دنیا کی 10 بڑی عظیم الجثہ کمپنیوں کی سربراہی بھی بھارتی نژاد لوگ کر رہے ہیں کئی بڑے عالمی میڈیا ہاؤسز بھی انہی کی ملکیت میں ہیں۔ ہندو سر کار ایک عرصے سے ”شائن انڈیا“ کے بیانیے کو پروموٹ کرتی رہی ہے جس کے باعث ہندوستان کی اچھی اچھی باتیں دنیا میں پھیلتی رہیں۔ بلکہ پھیلائی جاتی رہیں آج ہندوستان کا عالمی اثر اور اس کے بارے میں تاثر خاصا مستحکم ہو چکا ہے جبکہ ہم اور ہمارا منفی تاثر ہماری اصلیت سے قریب تر ہے۔ ہماری سیاست، ہماری معیشت، ہماری معاشرت اور ہماری اصلیت خاصی حد تک نہیں بلکہ مکمل طور پر دھند لائی ہوئی نظر آ رہی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ ایسے منفی تاثر اور حقیقت کے دوران پاکستان کے ایک منفرد تعلیمی ادارے کے بارے میں مثبت اور احسن تاثر بلکہ حقیقت کا سامنے آنا یقینا تسلی بخش ہی نہیں بلکہ انتہائی قابل ستائش ہے۔
یہ ادارہ 1974 میں پیپلز اوپن یونیورسٹی کے نام سے معرض وجود میں لایا گیا تھا اوپن یونیورسٹی کا تصور 1972-80 کی تعلیمی پالیسی میں پیش کیا گیا ہے 1977 میں شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے صد سالہ جشن کے موقع پر اس کا نام علامہ اقبال سے موسوم کر دیا گیا اس طرح پیپلز اوپن یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی بن گئی۔ ایسی یونیورسٹیاں دنیا بھر میں ایسے طلبہ وطالبات کی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کے لئے قائم کی جاتی ہیں جو بوجوہ اپنا ریگو لر تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکے ہوتے ہیں ایسے طلبہ وطالبات کو جو تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنے گھروں سے نہیں نکل سکتے ہوں یا وہ اپنی ملازمتوں کی مصروفیات کے باعث کل وقتی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکتے ہوں۔ ایسے لوگوں کے لئے جزوقتی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے فاصلاتی تعلیم و تربیت کا سلسلہ متعارف کرایا گیا ہے خط و کتابت، سیمینارز، ورکشاپس، ٹی وی، ریڈیو نشریات اور ٹیوٹرز کے ذریعے انکی تعلیمی وتربیتی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی فاصلاتی تعلیم و تربیت کا نظام چلانے والی اس وقت تک ایشیا کی سب سے بڑی درسگاہ بن چکی ہے اس یونیورسٹی کا دائرہ کار پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے یہاں سال میں دومرتبہ داخلے کئے جاتے ہیں 2000 کورسز میں 10 لاکھ سے زائد طلبہ وطالبات داخلہ لیتے ہیں میٹرک سے لے کر ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تعلیم دی جاتی ہے یونیورسٹی کے 54 علاقائی کیمپس ہیں۔
اوپن یونیورسٹی کا اپنا پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ کا شعبہ بھی ہے جہاں سالانہ 18 لاکھ سے زائد کتب چھاپی جاتی ہیں اس طرح اسے پاکستان کا سب سے بڑا پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ ہاؤس ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے یہاں انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل ٹیکنالوجی میں ریڈیو، ٹیلی وژن اور نان براڈ کاسٹ پروگراموں کی تشکیل اور تکمیل دینے کی سہولیات دستیاب ہیں اسطرح یہ پاکستان کا سب سے بڑا پروڈکشن اینڈ براڈ کا سٹنگ ہاؤس ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔
اور ہاں مجھے بھی یہاں پڑھانے اور طلبہ وطالبات کو جاننے کا اعزاز حاصل ہے ٹیلی وژن کی ایک معروف شخصیت ضیاء الرحمان امجد مرحوم و مغفور ہمارے دوستوں میں سے تھے جب ہم نے بطور اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ صحافت جائن کیا تو انہوں نے ہمیں اوپن یونیورسٹی کے ساتھ بطور جزوقتی استاد جڑنے کی ترغیب دی اور کہا کہ یہاں یعنی اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے فی الحقیقت طالبان علم ہوتے ہیں وہ اپنی کمائی سے فیس ادا کرتے ہیں۔ خصوصی طور پر وقت نکالتے ہیں پڑھتے ہیں اسائنمنٹیں بناتے ہیں، سمینارز میں شرکت کرتے ہیں تحریری امتحان دیتے ہیں پھر انہیں ڈگری ملتی ہے۔ میرا تجربہ ہے ذاتی مشاہدہ ہے کہ اوپن یونیورسٹی کے نظام تعلیم و تدریس سے گزر کر سند حاصل کرنے والے خواتین و حضرات دیگر اداروں کے فارغ التحصیل طلبہ وطالبات سے بہتر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔

Leave a Reply